Sunday, May 26, 2019

Don't stay silent on child abuse



  Since last couple of years, growing incidents of child abuse are of worrisome. It has become our unsolvable problem. Society has great responsibility that it should play its vital role in saving children from sexual abuse and death. We are not raising loud voice against this crime. This negligence is also of worrisome. No such epic incidents should occur in any decent country or society. Children are common responsibility of parents, society and state. Everyone of us knows that parents are obliged to take care of and educate their children. But there is also the responsibility of state as well to provide a safe environment for children where every child could live with peace and comfort. Society is also responsible to treat each child with due sympathy and adopt him as his child. Parents‘ individual self-training loses its effect at the time when the child gets out and he does not get a safe environment and becomes victim.

   Another issue is also that children are often sexually abused by bloody and close relatives, and it is difficult to help such children because of phycologic effects associated with them. In such cases, the problem is that children and their parents don’t obstruct but their families stand in the way of them. In such incidents, the role of police will remain as swing mark as long as their mental training involves respect of humanity and in their curriculum doesn’t include the chapter of human rights. Various researches regarding incidents related to child abuse show that one of five children in Pakistan suffers from sexual abuse before reaching its eighteen year of age. Its main reason is that parents don’t teach their children and deprive them from awareness. This silence is spreading the crime further.

   In my opinion, the whole society should support the victims of such incidents. We should conduct seminars on awareness related to child safety. We should raise voice against this and there should be strong protest against it. Representative authorities should provide justice to victims, and the criminals should be punished according to laws. There should be proper rules and regulations, firm laws for such cases so that such factors could be eliminated from our society and country. Its our common responsibility to save children from child abuse.

- Asad Qayyum Babar

یادداشتیں




ہوش والوں کو خبر کیا، بیخودی کیا چیز ہے
عشق کیجیے، پھر سمجھیے، زندگی کیا چیز ہے

3 مئی 2019، جمعة المبارک کی ایک سہ پہر - یہ تصویر تراڑکھل آزاد کشمیر بازار کے ایک چائے کے ڈھابے پر بیٹھے ہوئے ایک ایسے شخص کی ہے جس کی پہچان و شناخت اسی تک محدود تھی، یا پھر اردگرد کے لوگ جانتے ہوں گے، یا پھر علیم و خبیر پروردگار کو ہی بہتر پتا ہو گا ۔ وقت محدود تھا، میں اپنے دوستوں کے ہمراہ اسلام آباد کی طرف عازم سفر تھا، میں چاہتے ہوئے بھی مزید جاننے کی کوشش نہیں کر پایا ۔
ایک مفلوک الحال شخص، جس کی کل کائنات اس کے پاس موجود پلاسٹک کے تھیلے میں موجود کچھ سامان تھا جسے وہ اپنے ساتھ سمیٹے ہوئے تھا ۔ وہ کرسی پر بیٹھا ہوا دیگر جہان والوں سے بے نیاز اپنی دھن میں مگن، اپنی ہی دنیا میں محو تھا ۔ وقت کی تیز و تند لہروں نے اس کی جوانی کے نقوش دھندلا دیے تھے، اب تو جیسے

چہرے پہ اجاڑ زندگی کے
لمحات کی ان گنت خراشیں
آنکھوں کے شکستہ مرقدوں میں
حسرتوں کی روٹھی ہوئی لاشیں

اس کا بھی کوئی ماضی ہو گا،  اس کے وجود سے منسلک کوئی شخصیت ہو گی، اس سے وابستہ تلخ ہی سہی مگر کچھ یادداشتیں تو اس کی ذات سے تو منسلک و ملحق ہوں گی ۔ یا پھر قدرت نے اسے آغاز حیات سے ہی اس کڑی آزمائش میں ڈال کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا ۔ جو کچھ بھی تھا، ایک عمر تھی، ایک لمبا سفر تھا، جسے گزارنے والے، جس سے گزرنے والے مسافر کو ہی اصل حالات و کیفیات کا ادراک تھا ۔ خیر، وہ ذات پاک ہے جو کسی پر اس کی استطاعت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتی ۔
یہ آزمائش و امتحان در حقیقت اہل ہوش و عقل کا ہوتا ہے کہ ان کے ارد گرد قابل توجہ لوگ اگر موجود تھے تو کیا انہوں نے ان کی ضروریات کا خیال رکھا، جس توجہ اور حسن سلوک کے وہ مستحق تھے، وہ سلوک روا رکھا یا پھر انہیں گردش زمانہ کی نذر ہونے دیا، یہ عمومی رویے بارگاہ بے نیاز میں قابل مواخذہ اور قابل پرسش بھی ہو سکتے ہیں، کاش ہم لوگ ایسا سوچنے کی زحمت بھی گوارا کریں ۔

میں نے ہوٹل مالک کو اسے چائے کا کپ پیش کرنے کو کہا، اسے چائے پیش کی گئی، اس نے اطمینان سے چائے پی، میرے پاس کیمرہ تھا، میں نے اس کی ایک تصویر لی جو کہ تحریر کے ساتھ ہی منسلک ہے ۔ میں نے مختصر وقت میں اس شخص کی جو حرکات و سکنات نوٹ کیں، وہ یہ تھیں کہ وہ آسمان کی طرف دیکھتا تھا، مسکراتا تھا، سر کو جنبش دیتا تھا، جھکا لیتا تھا جیسے اسے دور پار خلاؤں میں کوئی خوبصورت شے نظر آ رہی ہو جو بظاہر تو آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی ہو مگر اس کی دسترس سے دور ہو یا اس شے کا تعلق کہیں اس کے بچپنے سے، لڑکپن سے، نوجوانی سے ہو جسے وہ ذہن میں لانے کے لیے کوشاں ہو مگر یہ بھی اس کے اختیار میں نہ ہو ۔

 واپسی کا وقت ہو چکا تھا، میں نے جاتے ہوئے ایک دل گرفتہ مسکراہٹ اس کی نذر کی جو کہ الوداعی سلام تھا، اس کے چہرے پر بھی لمحاتی مسکراہٹ لوٹ آئی تھی کہ جو آتی جاتی رہتی تھی، اس کی آنکھوں میں چمک تھی کہ بے بسی، امید کی لو تھی یا پھر اپنے اختتام کی منتظر اداسی ۔ گلے شکوے تھے یا پھر کچھ سوال ۔ ملی جلی کیفیات کا مرقع وہ شکستہ آنکھیں جن کی نظروں کا مزید سامنا کرنے کی مجھ میں تو کم از کم تاب نہ تھی، دل میں انسانی ہمدردی کا جذبہ ہونے کے باوجود میں بھی تو مصروف تھا، جس کے پاس کسی کو دینے کے لیے وقت نہیں تھا ۔ مجھے شدت سے اپنے تہی داماں ہونے کا احساس ہوا جو چاہتے ہوئے بھی ایک ہوش و خرد سے بیگانے شخص کی کچھ مدد نہ کر پایا تھا، البتہ وہ نگاہیں جیسے انہوں نے سارا سفر مرا تعاقب کیا ہو، مجھے اب تلک یاد ہیں ۔ اور پھر مسافر بھلا اہل طلب کا کب آسرا بنے ہیں ۔

یہ کن نظروں سے تو نے دیکھا مجھے
کہ ترا دیکھنا مجھ سے دیکھا نہ جائے

آپ احباب سے دست بستہ گزارش ہے کہ آپ سے جو کچھ بھی ہو سکتا ہو، ایسے لوگوں کی مدد کیجیے ۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹ لانے کی کوشش کیجیے اور ان کا جس قدر آپ خیال رکھ سکتے ہیں، خیال رکھیے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو کسی کی مدد کرنے کا موقع تو ملے مگر وقت گزر جائے اور ایسا نہ کرنا آپ کے لیے خلش دل، سوہان روح بن جائے۔

( توجہ سے پڑھنے اور اپنا قیمتی وقت دینے کے لیے آپ کا مشکور و ممنون ہوں، اگر ہو سکے تو یہ پیغام آگے پہنچانے میں مدد کیجیے اور اس تحریر کو دوسروں کے ساتھ بھی شئیر کر دیجیے

یوں تو خدا کے عاشق ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا )

تحریر: اسد قیوم بابر
"یادداشتیں"

Tuesday, November 06, 2018

ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ

" ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﻣﺮﺩ ﺳﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﺟﮧ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﺭﮨﻨﺎ "

ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﺎﮨﺮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻭﮦ مجھ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ " ﺭﮐﻮ ! ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻟﮯ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎتھ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﻮﮞ

ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﻭﮦ مجھ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻗﺪﻡ ﺁﮔﮯ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﮯ . ﻏﯿﺮ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺍﻭﺭ ﺧﻄﺮﻧﺎﮎ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﭘﺮ ﺍﺳﮑﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺍﺳﮑﮯ ﭼﮭﻮﮌﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺸﺎﻥ ﭘﺮ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﮯ ﻗﺪﺭﮮ ﮨﻤﻮﺍﺭ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﮐﯿﺎ

ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﮔﮩﺮﺍﺋﯽ ﺳﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﭼﮍﮬﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻧﭽﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﮈﮬﻼﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻭﮦ ﻣﮍ ﻣﮍ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﭼﮍﮬﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺗﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺪﺩ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎتھ ﺑﮍﮬﺎﺗﺎ ﮨﮯ 

ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮐﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﺑﻮﺟﮫ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﺎﻧﺪﮬﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺑﻨﺎ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﯿﮯ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ . ﺍﻭﺭ ﺍﮐﺜﺮ ﻭﺯﻧﯽ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﮕﮧ ﻣﻨﺘﻘﻞ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﺳﮑﺎ ﯾﮧ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﮧ " ﺗﻢ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ 

ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﺭﯼ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﺴﺒﺘﺎً ﺳﺎﯾﮧ ﺩﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﻣﻘﺎﻡ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ

ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﯽ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ ﮨﯽ ﻣﮩﯿﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺎﮨﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﻗﺖ ﻧﮧ ﺍﭨﮭﺎﻧﯽ ﭘﮍﮮ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺎﻣﻨﺎﺳﺐ ﺭﻭﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ

ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺧﻨﮑﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﺗﺎﺭﮮ ﮔﻨﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﭨﮭﻨﮉ ﻟﮓ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﮈﺭ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﻮﭦ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ

ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺭﮮ ﻏﻢ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻈﺒﻮﻁ ﮐﺎﻧﺪﮬﺎ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﻗﺪﻡ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ساتھ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﯾﻘﯿﻦ ﺩﻻﺗﺎ ﮨﮯ

ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺑﺪﺗﺮﯾﻦ ﺣﺎﻻﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺘﺎﻉِ ﺣﯿﺎﺕ ﻣﺎﻥ ﮐﺮ ﺗﺤﻔﻆ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺁﮔﮯ ﮈﮬﺎﻝ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ " ﮈﺭﻭ ﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ

ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﻏﯿﺮ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﺎ ﺣﻖ ﺟﺘﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ " ﺗﻢ ﺻﺮﻑ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﻮ

ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺍﮐﺜﺮ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﺧﻮﺷﮕﻮﺍﺭ ﺍﺣﺴﺎﺳﺎﺕ ﮐﻮ ﻣﺤﺾ ﻣﺮﺩ ﺳﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮﯼ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮐﮭﻮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ .

ﺷﺎﯾﺪ ﺳﻔﯿﺪ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﺷﮩﺰﺍﺩﻭﮞ ﻧﮯ ﺁﻧﺎ ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻣﺼﻨﻮﻋﺎﺕ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﺎﺯﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ

ﺟﺐ ﻣﺮﺩ ﯾﮧ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﺐ ﻭﮦ ﺍﺳﮑﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﮍﮬﺎﻧﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ . ﺗﺐ ﺍﯾﺴﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻟﻤﺤﺎﺕ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﻧﻔﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮯ ﺭﻧﮓ ﺍﻭﺭ ﺑﺪﻣﺰﮦ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﺗﻮﺍﺯﻥ ﮐﮭﻮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ 

ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﺑﺎﺯﯼ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺩﻭﮌ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻄﯿﻒ ﻟﻤﺤﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﺛﺎﺛﮧ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮐﺮ ﻟﯿﺠﯿﮯ 

تحریر: ﺍﺟﺎﻻ ﻋﺜﻤﺎﻥ

ذوقِ طلب



 میری طلب کسی اور سے نہیں، اپنے آپ سے کرنا! مجھے کسی اور کے پاس نہیں، اپنے ہی پاس ڈھونڈنا! میں تمہیں وہاں مل جاؤں تو ٹھیک ورنہ اور کہیں نہ ملوں گا! کسی کے پاس کیوں جاؤ؟ تمہارے سب سے قریب میں ہی ہوں، تمہیں میں وہاں نہیں ملا تو بغور دیکھو کوئی خلل تمہارے ہی اندر یا کہیں آس پاس ہوگا! ’دور‘ جانا عبث ہے!!!

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لِي وَلْيُؤْمِنُواْ بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ 

     ’گھر‘ خالی کر لو، میں آبسوں گا!!!    قسمت والے ’قربت‘ کا جو لطف لیتے ہیں، اگر کہیں تم اس کا اندازہ کر لو تو اپنی اِس ’دوری‘ پہ تمہارے یہاں ماتم کی صفیں بچھ جائیں!!!
      جس کو راستہ طویل لگے، اس کے قدم آہستہ ہو ہی جاتے ہیں!!!
      ’معرفت‘ وہ بساط ہے جس پر ’منظورِ نظر‘ لوگوں کے سوا کسی کو پیر دھرنے کی اجازت نہیں!
        ’محبت‘ وہ نغمہ ہے جس پر وہی دل طرب میں آئے گا جو ہر دوسرے نغمے سے اچاٹ ہوچکا! ’محبت‘ ایک میٹھا لذیذ چشمہ ہے جس کے چاروں طرف تپتا صحرا ہے اور جس کی نشان دہی کیلئے ’بنی بنائی‘ پگڈنڈیاں نہیں پائی جاتیں! یہی وجہ تو ہے کہ اس تک کوئی کوئی پہنچتا ہے، البتہ ’طلبگار‘ اس تک پہنچے بغیر نہیں رہتے اور نہ کبھی اس کا راستہ بھولتے ہیں!
      سبحان اللہ! جنت کی دلہن ’رشتے‘ کیلئے آنے والوں کی راہ میں سج کر بیٹھی، اور تو نے دیکھا ذوق والے اس کی مانگ بھرنے کیلئے ’مِہر‘ کا بندوبست کرتے بھاگے پھرتے ہیں.... خدائے رب العزت اپنے اسماءوصفات کی راہ سے قلوب پر جلو گر ہوا اور قسمت والے اُس کی طلب میں رات دن ایک کر چکے.... اور تو سدا کا بدبخت، جس نے اِس ’مردار‘ سے ہی فرصت نہ پائی!!!
      ’عبادت‘ کرنے والے کو شجرِ ’طوبیٰ ‘ کے تلے دم لینے سے پہلے آرام کہاں!؟ چشم تصور سے اپنے آپ کو اس کی چھاؤں میں ٹھاٹھ سے مجلسیں کرتا ہوا دیکھو، یہ سب محنت آپ سے آپ آسان ہوجائے گی! طالبِ صادق کو ’یوم المزید‘ سے پہلے قرار کہاں!؟ ذرا اس دن کا منظر اپنے سامنے لاؤ، اس کیلئے آج جو کچھ کر رہے ہو، نہایت بھلا لگنے لگے گا!     امام احمد سے پوچھا گیا: مومن کو آخر آرام بھی کبھی دیکھنے کو ملے گا؟        فرمایا: ہاں، جب جنت میں پہلا قدم دھر لےگا!

     اس مختصر زندگانی میں اُس کی جانب یک رخ رہو، مابعد الموت کے اربوں کھربوں سال وہ تمہیں کفایت کرتارہے گا!

    بہشت کی روحیں بڑی ہی عجیب نکلیں۔ قلوب کی سواریوں پر وہ سامان لادا کہ الامان والحفیظ! گویا دنیا خالی کر کے رکھ دیں گے! لاکھ فرمائشیں ہوئیں کہ راستے میں ذرا سامان کھولو تو۔ پر نہیں مانے۔ جواب دیا سامان بادشاہ کا ہے بادشاہ کے پاس جا کر کھلے گا! یہ قافلے چلے جاتے دیکھنا ہوں تو کبھی ان کو سحر کے وقت دیکھو! نسیمِ سحر شاید انہی کی راہ دیکھنے نکلتی ہے! دشتِ ہویٰ کو اقدامِ عزم سے یوں خوشی خوشی پار کر گئے کہ پتہ ہی نہ چلا! زیادہ نہیں چلنا پڑا، کہ کیا دیکھتے ہیں، واہ! منزل آگئی!!! شہرِ وصل میں پہنچے تو انعامِ ابد سامنے تھا!!! خلد کی راحت نے دور ہی سے استقبال کیلئے بازو پھیلا دیے!!!

     بادشاہ نے ہیرے جواہرات کے بے پناہ خزانے کسی بیابان میں رکھ چھوڑے ہیں، اور کسی کو ان کی خبر نہیں سوائے بادشاہ کے اپنے خاص لوگوں کے۔ ان خزانوں کا سراغ لگانا چاہو، تو بغور دیکھنا بادشاہ کے یہ خواص اور مقرب آدھی رات کو اٹھ کر بھلا کہاں جاتے ہیں! ان کے پیچھے پیچھے چل دو، تو بھی کچھ حرج نہیں!!!
         خزانوں کی کوئی حد تھوڑی ہے!!! 

   پہرہ داروں کیلئے شب بیداری کوئی بات نہ رہی؛ کہ جانتے ہیں ان کی ’جاگتے رہو‘ کی آوازیں بادشاہ تک جاتی ہیں!

     سلمہ بن دینارؒ کہتے ہیں:
         جو چیز تمہیں پسند ہے کہ وہ آخرت میں تمہارے ساتھ ہو اُس کو ابھی سے بُک کروا دو۔ ایسا نہ ہو تم چلے جاؤ اور یہ پیچھے رہ جائے! جس چیز کے آخرت میں تمہارے پاس پائے جانے سے تمہاری جان جاتی ہے اس سے آج ہی جان چھڑا لو۔ ایسا نہ ہو کہ جانے لگو تو سامان میں ساتھ ہی چلی جائے!
(ماخوذ از الفوائد، مؤلفہ ابن قیم)

سنو بھی : ذرا کھل کر ' ذرا ہٹ کر '

میرے دیس میں ان دنوں
شور بپا ہے چاروں طرف
' ہم بدلیں گے پاکستان '

نعرہ سب کا ایک سا ہے
سب سے بڑھ  کر نوجوان نسل آگے آگے دوڑ رہی ہے
اسلام کو تو چھوڑ رہی ہے اغیار سے سب کو جوڑ رہی ہے 

ان نوجوانوں کو کوئی بتائے
نہ لا سکا ہے انقلاب کوئی
چھوڑ کر اپنے اسلاف کی روش کو
اور جن کو سمجھتے ہو تم مسیحا
ان کا حال تو ذرا سن لو
اہل ہوس میں گرم ہے پھر جنگ اقتدار
شعلوں کی زد میں سارا گلستاں ہے دوستو

   وقت گزاری کے لئے لکھ رہا ہوں کیوں کہ جانتا ہوں میرے لفظوں میں وہ تاثیر نہیں کہ آپ لوگوں کے دلوں کو پھیر دے -  موضوع سیدھا سادہ سا ہے  انگریزی فلمیں   انگریزی گانے ' انڈین فلمیں  انڈین گانے ' پاکستانی فلمیں   پاکستانی گانے - نوجوان نسل بلخصوص طبقہ اشرفیہ ' اپر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کی نوجوان نسل مکمل طور پر رسیا ہو چکی ان خرافات کی - اور اس دلدل سے نکلنا ہوا مشکل -

  میں آپ کے سامنے قرآن و حدیث بلکل نہیں پیش کروں گا - کیوں کہ اگر میں نے پیش کر دیا اور کسی کے ماتھے پر ذرا سی شکن بھی آ گئی تو اس کی پکڑ سخت ہو گی کیوں کہ ہم مسلمان تبھی کہلاتے ہیں جب قرآن و حدیث پر دل و جان سے کم از کم ایمان تو رکھیں ' عمل بعد کی بات - 

  اس لئے میں اک نئے انداز سے آپ تک پہنچاؤں گا اپنے دل کی آواز (سوز و غم بھی که سکتے ہیں )اک ہوتا ہے ہیرو اور اک ہوتی ہے ہیروئین ' مرکزی کردار کسی بھی فلم کے - ٩٩% فلموں میں عشق و محبت و پیار و الفت  وغیرہ ہی بنیادی اجزا ہوتے ہیں -  کردار و الفاظ بہت  سوچ سمجھ کر سلیکٹ کئے جاتے ہیں تا کہ ناظرین زیادہ سے زیادہ محظوظ ہو سکیں اور پھر گانے کے بول تو سونے پر سہاگے کا کام کرتے ہیں - اور گانے کے دوران کی حرکات و سکنات تو آسمان پر پہنچا دیتی ہیں ناظرین کو - 

  الله تعالیٰ نے مرد ذات میں شہوت کے مادے کو عورت ذات سے زیادہ قوی بنایا ہے - قدرتی طور پر مرد ذات  میں عورت ذات کی خواہش رکھ دی گئی - اسی لئے اس کی ایک مثال جو کہ بہت بری ہے وہ ہے زنا با لجبر ' یہ تبھی انسان کرتا ہے جب شہوت پر کنٹرول کھو دیتا ہے - باقی اس بات سے انکار نہیں کہ عورت میں شہوت ہوتی ہی نہیں ' بلکل موجود ہوتی ہے مگر اس پر کئی اور چیزیں غالب ہوتی ہیں - تفصیل کسی اور موقع پر ' ابھی موضوع پر واپس آتا ہوں - مختصرا میری قوم کے نوجوان اسی لئے فلمیں دیکھتے گانے سنتے ایسی محافل میں جاتے ایسی محافل سجاتے - فلموں میں سب سے پسندیدہ مناظر گانے کے دوران والے ہوتے ہیں - اور خاص کر وہ گانا جس میں لفظوں اور حرکات میں مطابقت پائی جاتی ہو -  اور میری قوم کے نوجوان لڑکوں کی نظریں ہیرو پر بہت کم اور ہیروئن پر بہت دیر جمی رہتی ہیں گانے کے دوران - 

   ظاہر ہے مرد ذات یا نوجوان لڑکا ' ہیروئن کو اسی لئے دیکھتا ہے کہ وہ خوبصورت ' وہ پر کشش ' اس کا نسوانی حسن ' اس کے مختصر ترین کپڑے' اس کا چھلکتا جسم   - اتنی منظر کشی کافی ہے - - اب یہاں پر خاص نقطہ یہ ہے کہ کیا وہ تمام حضرات اس ہیروئن کی جگہ اپنی بیوی ' بیٹی ' بہن یا ماں کو دیکھنا پسند کریں گے  ؟(کیا وہ لوگ یہ کام اپنی عورتوں کو کرنے کی اجازت دیں گے ؟؟ ( ہر ہفتے کسی اور کی باہوں میں دوسروں کی عورتوں کو دیکھ کر خوش ہونے والے ' لذت اٹھانے والے ' محظوظ ہونے والے ' آنکھوں کی ٹھنڈک پانے والے  کیوں نہیں  اپنے گھر والوں کو ویسا کرنے دیتے ؟ 

  اب آتے ہیں نوجوان لڑکیوں کی سوچ کی طرف ' میرے خیال سے نوجوان لڑکیاں ہیرو پر زیادہ نظریں مرکوز کرتی ہوں گی ( میرا خیال غلط بھی ہو سکتا ہے) مگر یہاں اک بات اچھی ہے کہ ہیرو کے زیادہ تر کپڑے پورے ہی ہوتے ' ستر چھپا ہی ہوتا  سو لڑکیاں ' لڑکوں کی نسبت کم گناہ لکھوا پاتیں اب ذرا یہ مسلم لڑکیاں ہیروئن کی جگہ خود کو رکھیں اور سوچیں  کہ ہر ہفتے اک نیا غیر مرد آپ کے ساتھ ہو اور پوری دنیا آپ کو دیکھے (ہیروئن ہوتی نا آپ ) - پھر وہ تمام مناظر سوچیں ذرا آپ کہ آپ کے ساتھ ہیرو بھی وہی کچھ کر رہا ہو - - میں تو صرف لکھ رہا ہوں ہو سکتا ہے آپ کا پارہ چڑھ رہا ہو کہ کیا بکواس کر رہا ہوں - مگر مجبورا آپ سب خواتین و حضرات کو ماننا پڑے گا کہ میں غلط کچھ بھی نہیں که رہا -

  فلمیں دیکھنے اور گانے سننے کا رائی کے دانے کے برابر بھی مثبت احتمال نہیں نکالا جا سکتا نہیں بتایا جا سکتا -
بحثیت اک کمزور ترین درجے والا مسلمان ہو کر بھی ہم سب میں سے کوئی بھی فلمیں دیکھنے اور گانے سننے کا دفاع نہیں کر سکتا -  اگر اسلامی نقطہ نظر کو سائیڈ پر رکھ کر اوپر بیان کئے گئے سوالات کے جوابات آپ میں سے کوئی دے سکتا ہے تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اپنا عمل دکھا دے  کہ یہ دیکھو میرے گھر کی عورتیں یہ یہ کر رہیں ' اور اگر لڑکیاں جواب دینا چاہیں تو وہ بھی اپنے ہر ہفتے کے ہیرو کا نام بتا دیں - 

 فلمیں اور گانے چاہے وقت گزاری کے لئے دیکھیں اور سنیں مگر اثر ضرور ہو گا - وہ اثر جو کہ آپ خود نہیں چاہتے کہ ہو اصل میں مگر ذرا ان پہلوؤں پر غور کریں شائد کہ آپ تبدیلی لانے کے قابل ہو جائیں -

بات ختم کرتا ہوں اقبال کے اس شعر کے ساتھ 
چاہتے سب ہيں کہ ہوں اوج ثريا پہ مقيم
پہلے ويسا کوئي پيدا تو کرے قلب سليم
(نوٹ: یہ تحریر نقل شدہ ہے)


آزمائش اور استقامت


 الله تعالیٰ نے بنی نوح انسان کے لیے جو انبیائے کرام مبعوث فرمائے ہیں انکا کام لوگوں کی حق کی طرف رہنمائی تھا ـ ظاهر ہے اتنا کھٹن کام بغیر تکلیف اور مشقت کے کیسے پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے ـ کم وبیش ہر نبی کو اس کی امت کی طرف سے مصائب اور پریشانیوں کا کوہ گراں عبور کرنا پڑتا تھا تب جاکر کہیں کچھ لوگ انکی دعوت پر لبیک کہتے تھے ـ الله تعالی نے ان میں سے پانچ اولوالعزم پیغمبروں کا تذکرہ بطور خاص کیا ہے ـ جن میں حضرت نوح علیہ السلام حضرت ابراهیم علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام حضرت عیسی علیہ سلام اور جناب محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اسماء گرامی ہیں ـــ ان انبیاء کرام کے حالات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انکی آزمائشیں بہت ہی سخت تھیں ـ

    حضرت ابراهیم علیہ السلام کی آزمائشیں تو بہت زیادہ ہیں لیکن جس آزمائش پر آسمان کے فرشتے بھی رو پڑے تھے وہ آزمائش تھی اپنے محبوب لخت جگر سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کرنا کہ جس کو رب سے رو رو کر مانگا گیا تھا ـ لیکن قربان جاؤں خلیل الله کی وفا پر کہ اپنے رب کے حکم پر بیٹے کی گردن پر چھری چلا دی ــ پھر رب نے صلہ بھی کیا خوب دیا فرمایا " انی جاعلک للناس اماما" آج یہودی بھی یہ دعوی کرتے ہیں کہ ابراهیم ہمارا ہے عیسائی بھی ابراهیم علیہ السلام کواپنا پیشوا تسلیم کرتے ہیں وہ الگ بات ہے کہ قرآن ان کے اس دعوے کی واشگاف الفاظ میں تردید کرتا ہے ـ" ما کان ابراهیم یہودیا ولا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما "

    اگر اپنے اسلاف کی بات کی جائے تو ان میں امام احمد بن حنبل رح کی آزمائش اور استقامت خلق قرآن کے مسئلے پر ہے شاید ہی اسکی نظیر مل سکے ـ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ امام صاحب کو قریبا اٹھائیس مہنیے تک قید میں رکھا گیا اور ایسی شدت کے کوڑے لگائے جاتے کہ اگر ویسا ایک کوڑا ہاتھی پر پڑتا تو چیخ مار کر بھاگتا مگر امام صاحب کی استقامت کو سلام ہےکہ جو کوڑے کھا کھا کر بے ہوش تو ہوجاتے مگر خلق قرآن کے عقیدے کا اقرار کرنا گوارا نہ کیا ـ حتی کہ امام بخاری رح کے استاد بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ " الله تعالی نے اس دین کے غلبہ اور حفاظت کا کام دو شخصوں سے لیا ہے کہ جن کا تیسرا ہمسر نظر نہیں آتا ـ

    ارتداد کے موقع پر صدیق اکبر رضی الله عنہ اور فتنہ خلق قرآن کے موقع پر احمد بن حنبل ــ امام صاحب کی حق گوئی اور استقامت کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ خلق قرآن کا فتنہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا دوسرا انکے جنازے کو دیکھ کر بیس ہزار غیر مسلم اسلام لے آئے تھے ـ روایات میں آتا ہے کہ قریبا آٹھ لاکھ لوگوں نے امام صاحب کی نماز جنازہ ادا کی ـ امام شافعی رح جیسے فقیہ نےانکی اس قمیص کو دھوکر پیا کہ جو کوڑے لگتے وقت امام صاحب کے جسم پر تھی ـ یہ ایک دو واقعات نمونے کے طور پر تھے ـ حق پر استقامت کا صلہ الله کی طرف سے ضرور داعیوں کو ملتا ہے ـ اور وہ لوگوں کی ھدایت کا زریعہ بنتے ہیں ـ ایک الله والے کا قول ہے کہ استقامت ہزار کرامتوں سے افضل ہے ـ ایک موقع پر الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے بھی اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ ان پر وہ آیت بھاری ہے کہ جس پر استقامت کا حکم دیا گیا ہے ـ الله تعالی ہم کو بھی حق پر استقامت نصیب فرمائے ـ آمین

خوشی کا اُصول




اس پوسٹ سے قبل میں ایک بلاگ پوسٹ لکھ چُکی ہوں جس کا موضوع خوشی اور ٹایئٹل "خوشی کا راز " تھا۔ آج جو پیشِ خدمت ہے اسکا نام ہے" خوشی کا اُصول" اب آپ سوچیں گے کہ خوشی کے اُصول اور خوشی کے راز میں کیا فرق ہوگیا؟عقلمند ویسے ایسا نہیں سوچیں گے کیونکہ راز اور اُصول میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے۔ خوشی کے ناکام راز آپ کے سامنے پہلے ہی فاش ہوچکے ہیں اب آپ کو خوشی کے لاگو اْصولوں کا سامنا کروانے کی سعی کرتے ہیں.
  خوشی کا کیا اُصول ہوتا ہے؟

    پہلے دادی اور پھر اپنے پاپا سے کہانیاں سُننے کا شوق بچپن میں میرے سر پر سوار تھا کہانیاں جو لوک داستانوں کی شکل میں ہوتی ہیں یا بادشاہوں کی کہانیاں اپنے اندر بہت گہرے راز سموئے ہوئے ہیں۔ بچپن میں دہرائی جانے والی ان کہانیوں میں ایک ایسے قصے کا بھی ذکر تھا جس کے اندر خوشی کا اُصول بیان ہوا ہے یہ ایک جابر اُصول تھا مگر کسی نہ کسی صورت میں اُصول سارے ہی جابر ہوتے ہیں۔ کہانی میں ایک ایسی ریاست کا ذکر ہے جس کے بادشاہ کا ایک ہی اُصول ہے کہ رعایا کو جیسی بھی حالت میں رکھا جائے مگر بادشاہ اُن سے روز رات کو ایک سوال ضرور پوچھے گا کہ "خوش ہو؟" اور سب نے ہاں میں ہی جواب دینا ہے کوئی بھی "نہ" میں جواب نہیں دے سکتا۔ نفی میں جواب دینے والے کو سخت سے سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا ، اب بادشاہ کی ریاست میں رعایا کو دن رات کام کروایا جاتا ہے پورے دن کی مزدوری کے بعد کھانے کو ایک سوکھی روٹی اور دال دی جاتی اور پھر رات کو جب بادشاہ سلامت پوچھتے کہ "خوش ہو؟" تو سب یہی جواب دیتے کہ خوش ہیں اس ایک اُصول کی کوئی خلاف ورزی نہیں کرسکتا تھا پھر کچھ یوں ہوتا ہے کہ ایک انتہائی چالاک لڑکا بادشاہ سے بدلا لیتا ہے اور اس کا جینا محال کردیتا ہے اور ہر بار سوال پوچھتا ہے کہ "بادشاہ سلامت خوش ہیں؟" کیونکہ اُصول بادشاہ پر بھی لاگو ہوتا تھا، ریاست جیسی بھی تھی استثنیٰ سے عاری نہیں تھی تو بیچارے بادشاہ کو اپنا سب کچھ لُٹا کر بھی جواب دینا پڑتا کہ ہاں خوش ہوں، یہ پنجاب کی ایک مشہور کہانی یا قصہ ہے جو دادیاں نانیاں سُناتی ہیں میری دادی نے ہی میرے پاپا کو سُنائی پھر وہ آگے پھیلائی گئی مگر اس کہانی میں کیا سبق چُھپا ہے؟؟ تو وہ ہے خوشی کا اُصول ۔ کیا ایسا خوشی کا اُصول ہوتا ہے؟ بس دیکھ لیں۔

        ہمارے گھر بھی ایک ریاست ہیں جہاں سارے گھر کی مالکن اور بادشاہ "ماں " ہوتی ہے اور ہماری عموماً سب مایئں اِسی اُصول کو اپنے لاشعور میں سمو کر اپنی اس ریاست کے امور سرانجام دے رہی ہیں ہم سب کے گھروں کا صرف ایک اُصول ہے  بادشاہ ماں ہے جس نے بغیر الفاظ کے یہ سوال پوچھتے  رہنا ہے کہ "خوش ہو؟" اور رعایا یعنی بچوں نے یہی جواب دینا ہے کہ "ہاں خوش ہیں" نہیں کہنے کا یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا "نہیں" کہنے کی صورت میں کیا ہوتا ہے؟ مجھے نہیں معلوم سزا کس حد کی ہوتی ہوگی، کہاں تک ہوتی ہوگی یا ہوتی بھی ہو کہ یا نہیں مگر یہ روایت ہی نہیں ہے کہ انکار کیا جائے "نہیں" کا کوئی جواز نہیں ہے،ماں کیسی بھی پڑھی لکھی ہو یا ان پڑھ ، مڈل کلاس ہو یا اپر مڈل کلاس سب کی ریاست کا ایک ہی اُصول ہے "خوش ہو" "ہاں جی خوش ہیں " جو ملے خوش ہو ، نہیں ملا خوش ہو ، ماں کبھی "نہیں خوش ہوں" نہیں سُنتی اور کبھی یہ سوال پوچھتی بھی نہیں ہے کہ خوش ہو یا نہیں مگر بہانوں بہانوں میں اس کا جواب مانگتی رہتی ہے ، کوئی بھی گلہ شکوہ سُننے سے انکاری ماں ہمیشہ بچوں کو خوش ہی ماننا چاہتی ہے ، یہ خدانخواستہ کوئی برائی نہیں ہے جو یہاں بیان کی جارہی ہے نہ ہی اس کا تعلق ماں جیسی عظیم ہستی کے احسانات و محبت سے انکار ہے یہ محض رویوں کی بات ہے اور اس بات کے ایمان کی کہ میرے بچے خوش ہیں ، اب چاہے وہ خوش نہیں ہیں مگر پھر بھی وہ اس بات کا ایمان کبھی نہیں ٹوٹنے دیتیں کہ میرا بچہ خوش ہے ۔اسکا تعلق صنفی تفریق سے بھی نہیں ہے بیٹا ہو یا بیٹی ماں اِس اُصول کا استعمال دونوں پر ہی برابری سے کرتی ہے اور کبھی اس اُصول میں تفریق نہیں برتتی ، میں نے ماؤں کو اپنے بچوں کے لئے مانگتے دیکھا ، کبھی اُن کی چھوٹی سے چھوٹی خواہش کے لئے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوئے دیکھا،کبھی اپنے بچے کے علاج کے لئے زاروقطار  روتے ہوئے دیکھا ہے ، دوسروں سے اپنے بچوں کی خاطر لڑتے ہوئے بھی دیکھا ہے مگر جب بات بچے اور ماں کے درمیان کے تعلق پر آتی ہے ماں فوراً وہ بادشاہ بن جاتی ہے جسکو اپنے بچے کی "ہاں" ہی سُننی ہے ، میں نے پچھلے دنوں کچھ لوگوں کو بہت عجیب گفتگو کرتے سُنا وہ کہہ رہے تھے کہ "ماں اور خدا کے سوا کوئی انسان کے شکوے نہیں سُنتا" خدا سے شکوے کرنے کو لوگ ناشُکری قرار دیتے ہیں اور ایسی بھی  "ماں" ہے بھئی جو شکوہ سُن لیتی ہے؟ ہماری تو نہیں سُنتی یہ مزاق نہیں ہے ہماری ماؤں کا یہ ایمان ہے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ تم خوش نہ ہو ، شائد یہ اُصول بھی ماں نے خدا سے ہی سیکھا ہے خدا بھی بندے کو کبھی گراتا ہے کبھی اُٹھاتا ہے کبھی نواز دیتا ہے کبھی چھین لیتا ہے مگر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں خوش نہیں ہوں ، خدا کا حکم ہے کہ ہر حال میں خوش رہنا ہے یہی خوشی کا اُصول ہوتا ہے یہی ماں کا اُصول ہوتا ہے ہماری ماؤں کے لئے ہم دنیا کے خوش و خرم انسان ہیں کیونکہ اُنہوں نے جب بھی پوچھنا ہے تم خوش ہو تو "ہاں خوش ہیں" ہی جواب دینا ہے ، یہ اُصول بھی ماں بادشاہ کا اپنا بنایا ہوا ہے اور وہ لوگ جن کی ماں "نہیں خوش ہوں " سُن لیتے ہیں وہ بھی خوش قسمت انسان ہیں یہ بھی ماں کی محبت کا ایک طور ہوتا ہوگااُس کی سہہ جانے کی ایک صلاحیت ہوتی ہوگی  مگر شاید وہ اُصول سے آزاد ہوں گے خوشی کے اُصول سے آزاد ۔یہ خوشی کا اُصول جو یہاں لاگو ہے یہ ماں نے آپکو زندگی کی شاید ایک پریکٹیس کروانی ہوتی ہے تسلیم و رضا سیکھانی ہوتی ہے کہ خدا کسی بھی حال میں رکھے جواب "خوش ہوں " ہی دینا ہے۔

تحریر: فریحہ فاروق

Monday, September 19, 2016

پہنچا ہوا


  
   بندہ خدا کی جانب عازم سفر ہوتا ہے اور اُس تک پہنچنے کا قصد کر کے اٹھ کھڑا ہوتا ہے، تو بہت سے فریب راہ میں اس کی گھات لگا کر بیٹھتے ہیں۔ ’رہزنی‘ کی متعدد وارداتیں اس کے ساتھ پیش آنا ہوتی ہیں، ہر بار اِس کو خدا ہی بچائے تو بچائے.


     پہلے خواہشات اور شہوات ہزار روپ بھر کر اسکے راستے میں آتی ہیں۔ سیادت، عہدے، مناصب اس سے ’محض خدا کا قصد‘ چھڑوانے میں سب اپنی اپنی صلاحیت آزماتے ہیں۔ آسائشیں، بہتر سے بہتر مواقع، اونچے اونچے گھرانوں سے رشتے، اسکے ذہن پر حاوی ہونے کیلئے کافی ہوتے ہیں۔ سواریاں، محلات، پوشاکیں باقاعدہ ایک کھینچ رکھتی ہیں۔یہ سب چیزیں اسکے دامن سے لپٹتی ہیں تو اسکو آگے جانے کا چھوڑتی ہی نہیں۔ وہ یہیں رہ بسے تو اسکا سفر ختم، آگے بڑھتا چلا جانے پر ہی مصر ہے تو دامن کھینچ کر چھڑانا پڑتا ہے۔

      اسکی طلب صادق ہے اور وہ یہیں بیٹھ رہنا گوارا نہیں کرتا تو اگلی گھاٹی آتی ہے۔ یہاں آزمائش نے عقیدت کا روپ دھار لیا ہے۔ اب دست بوسی ہونے لگتی ہے۔ ارادتمندوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ مجلس میں وارد ہوں تو ہر آدمی حضرت کیلئے اپنی نشست چھوڑتا ہے۔ ’دعاؤں کی درخواستیں‘ ہونے لگتی ہیں۔ برکت کیلئے یہیں کا رخ ہوتا ہے، اور اپنے ہاں قدم رنجہ فرمانے کی درخواست بھی۔ یہ سب، اسکو گرا لینے کیلئے کافی ہوتا ہے۔ کوئی قسمت والا ہی اسکی تاب لائے تو لائے۔ وہ یہاں رک جائے تو یہی اس کا نصیب ہوتا ہے اور یہی اس کا حظ۔ 
     یہاں سے آگے بڑھے تو کرامات کی آزمائش آتی ہے۔ وہ ان میں الجھ جائے تو خدا کا قصد چلا جاتا ہے اور بس یہی اس کا حظ ٹھہرتا ہے۔
   
یہاں بھی نہیں رکتا تو ’اخلاص‘ اور ’تجرد‘ ہی، جوکہ اس کو یہ سب راستہ چلاتا آیا، اب اس کے حق میں ایک آفت کی صورت دھارتا ہے۔ ’تنہائی‘ کی کچھ ایسی لت پڑ جاتی ہے کہ شریعت اور جہاد کے بہت سے مصالح معطل ہوجاتے ہیں۔ ’خلوت‘ کی طلب حد سے بڑھ جاتی ہے اور خدا کی جانب توجہ کی ’دلجمعی‘ اور اس میں ’لذت‘ پانے کے عمل میں وقت کے نہایت اہم فرائض قربان ہونے لگتے ہیں۔

    وہ یہاں رک جائے تو خدا کی جانب سفر ختم اور تسکینِ نفس کا عمل شروع۔ اور اگر راستے کی کسی منزل پہ رکنے کا روادار نہیں اور خدا کی جانب مسلسل بڑھتا چلا جانے کا عزم برقرار رکھتا ہے، یوں کہ اسکی نظر اس بات پر جا ٹکے کہ خدا اس سے عین اس لمحے کیا چاہتا ہے، وہ خدا کے در پہ چاک و چوبند نوکر کی طرح حکم لینے کیلئے کھڑا ہوجاتا ہے کہ خدا ایک بار اشارہ کردے کہ اُس کی مرضی اور خوشنودی فلاں چیز یا فلاں ادا میں پائی جاتی ہے وہ اپنی پسند نا پسند کو پس پشت ڈال کر اُس کے اشارے کی سمت میں ہی بھاگ کھڑا ہوگا، خدا کا اس سے عین اس وقت جو تقاضا ہے اس کی نگاہ اس پر سے ہٹ جانا ایک لمحے کیلئے بھی اِسکو گوارا نہیں، خواہ وہ اس کے نفس کو بھائے یا اس کیلئے باعث تکلیف ہو، اس کی خلوت کو برقرار رکھے یا لوگوں کے ہجوم میں اِس کو دھکیل دے، اِس کا اپنا کوئی اختیار ہے ہی نہیں سوائے جو اِس کا آقا اور اِس کا مالک ہی اس کیلئے اختیار کرے، یہ اُس کا بندۂ محض کہ جس کا نفس اس کیلئے اتنا بے وقعت ہوچکا کہ مالک کی مرضی اور خوشنودی کے سامنے اس کی اپنی پسند کوئی سوال ہی نہیں رہ گیا بلکہ تو ایک بڑی جسارت ہے.... غرض آدمی خدا کے اشارے کی سمت بھاگ اٹھنے کا شیوہ چھوڑنے پر تیار نہیں تو یہ ہے وہ شخص جو خدا کو اپنا نصب العین بنا رکھنے اور اس کا قصد کرنے سے دستبردار نہیں۔ 
’پہنچا ہوا‘ کوئی ہے تو دراصل یہی شخص!

جس کا ’سفر‘ جاری، ’عاجزی‘ برقرار، ’توحید‘ سلامت اور ’قصد‘ زندہ ہے ’پہنچا ہوا‘ وہ ہے.... نہ کہ تھک کر بیٹھ رہنے والا اور اپنی کمائی یہیں بیٹھ کر کھانے والا!


(استفادہ از: الفوائد، مؤلفہ ابن القیمؒ، ص 172)

Tuesday, September 06, 2016

میری خوشی، میری عید تم سے ہے

    اسے گئے ہوئے دس ماہ ہوگئے تھے اور آمنہ کو یوں لگ رہا تھا کہ کتنے سال ہو گئے ہيں اسے گئے ہوئے۔ ان دس ماہ ميں کہاں کہاں اسے اس کی کمی محسوس نہيں ہوئی تھی۔ اس کو بھیجنے ميں بھی اس کا اپنا ہاتھ تھا، اس ليے کسی کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی۔
    وليد ايک سپر سٹور چلاتا تھا اور اللہ کے فضل سے اچھی گزر بسر بھی ہو رہی تھی، دو چھوٹے بچے تھے، بوڑھے والد تھے اور ایک چھوٹا بھائی 14 سال کا اور بيوی آمنہ۔ سب کچھ بہت اچھے سے چل رہا تھا، سب خوش تھے، مطمئن تھے کہ ایسے میں آمنہ کی ایک سہيلی ايک دن بازار ميں اس سے ٹکرا گئی۔ حال احوال پوچھا تو پتا چلا کہ اس کا مياں تو مسقط چلا گیا ہے اور ان کے تو وارے نیارے ہو چکے ہيں۔ بہت جلد وہ نيا بنگلہ بنوانے کا سوچ رہی ہے اور سیکنڈ ہينڈ گاڑی بھی خريد لی ہے۔ بچے بھی اچھے انگلش پرائیویٹ سکول ميں داخل ہو چکے ہيں اور زندگی پہلے سے بہت بہتر ہو چکی ہے۔
   آمنہ گھر تو آ گئی ليکن اس کا ذہن اس کی باتوں ميں اٹک گيا تھا۔ اگر وليد بھی باہر چلا جائے تو ہمارے ليے بھی کتنی آسانی ہو جائے۔ شام کو اس نے وليد کو اپنی سہيلی کے بارے ميں بتایا اور کہنے لگی کہ اگر تم بھی باہر چلے جاؤ تو ہماری زندگی کتنی اچھی ہو جائے نا۔ وليد نے ايک طرح سے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے چادر منہ پر تان لی اور کوئی جواب نہ ديا۔ دوسری شام آمنہ نے پھر اپنی بات دہرائی۔ ولید نے اس کو سمجھانے کے اندز ميں کہا کہ ”دیکھو، اللہ تعالی کا فضل ہے ہم بہت اچھے طريقے سے زندگی گزار رہے ہيں، کبھی فاقہ نہيں کيا، بچے اچھے سکول ميں جاتے ہيں۔ ميں تو مطمئن ہوں.“ مگر وہ آمنہ ہی کیا جو اپنی بات سے پيچھے ہٹ جائے۔ کھٹ سے بولی، ”ديکھو تمہارے پاس موٹرسائيکل ہے، دھوپ ہو یا بارش تم بچوں کو اس پر لے کر جاتے ہو۔ ابا جی کو ہسپتال لے کر جانا ہو تو بےچارے کتنی مشکل سے موٹرسائيکل پر بیٹھتے ہيں۔ سوچو اگر گاڑی ہو جائے گی تو کتنا آرام ہو جائے گا۔ بچوں کا سکول ہے تو اچھا مگرعام سا سکول ہے، کل جب بچے کسی اچھے اور بڑے سکول ميں جائيں گے توان کے مستقبل پر کتنا اچھا اثر پڑے گا؟ اس گھر ميں بچے ہمارے کمرے ميں سوتے ہيں، بڑا گھر ہوگا تو سب کا اپنا اپنا کمرہ ہو گا۔“ غرضیکہ آمنہ کے پاس ہر بات کی دليل موجود تھی۔
   آمنہ کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ ولید نے ايک دن اسے کہا کہ ”دیکھو، ميں چلا گيا تو تمہيں بہت مشکل ہو گی۔ بھائی چھوٹا ہے، بچے چھوٹے ہيں، ابا جی ضعيف ہيں۔ تم اکيلے کیسے سنبھالوگی سب کچھ؟“ ميں کر لوں گی سب کچھ، اب اتنا بھی مشکل نہيں۔ بچوں کو سکول وین لگوا دوں گی، بھائی کے پاس تو سائيکل ہے نا، اور اگر ابا جی نے ہسپتال جانا ہوا تو ٹيکسی سے چلے جائیں گے، اب تم بہانے مت بنائو۔ اس کی ضد کے ہاتھوں وليد مجبور ہو گيا اور پتا نہيں کن کن جتنوں سے اس نے ادھر ادھر کہلوا کر مسقط کا ويزا حاصل کر ليا۔ سٹور اس نے کرائے پر چڑھا دیا۔ جس دن اس نے جانا تھا، آمنہ تو اڑتی پھرتی تھی۔ ولید نے اسے کہا کہ ابھی بھی سوچ لو، بہت مشکل ہو جائے گی لیکن وہ بھی اپنے نام کی ہی تھی، نہیں مانی اور وہ بجھے دل کے ساتھ چلا گيا۔
    شام کو چھوٹے بيٹا گلی ميں کھيلتے ہوئے گرگيا، سر پر چوٹ لگ گئی، خون نکلنے لگا، آمنہ کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے، ٹيکسی کروا کر ہسپتال پہنچی، مرہم پٹی کروائی، گھر واپس آئی تو شام کا کھانا بنا تھا، ابھی وہ بنا کر فارغ ہوئی تو ابا جی کی دوائی کا وقت ہو گيا۔ انہيں دوائی دی، کچھ دير ان کی ٹانگيں دبائيں۔ پھر سارے دروازے بند کیے اور تھکن سے نڈھال بستر پر چلی آئی مگ نيند کوسوں دور تھی۔ وليد کمرے میں نہيں تھا تو اسے عجیب عجيب لگ رہا تھا۔ خير کروٹيں بدلتے بدلتے نیند آ ہی گئی۔
    فجر کے وقت ابا جی نے آواز دی تو اس سے تو ہلا بھی نہيں جا رہا تھا ليکن اٹھنا پڑا۔ نماز پڑھی تو دودھ والا آ گیا۔ وہ لے کر اندر رکھا، ابھی وہ گيا ہی تھا کہ کوڑا اٹھانے والے نے دستک دی، اسے کوڑا پکڑايا۔ اس سے پہلے یہ سب کام وليد کرتا تھا۔ اتنے ميں ابا جی کو ناشتے اور چائے کی طلب ہوئی، فٹافٹ ان کے ليے ناشتہ اور چاۓ بنائی۔ اس کے بعد بچوں کو جگايا۔ بھاگم بھاگ ناشتہ بنايا، ان کے لنچ باکس بنائے، خود ناشتہ کرنے نہيں بيٹھی کيونکہ اسے آج ان کے ساتھ ہی نکلنا تھا تاکہ سکول وين کا بندوبست کر سکے۔ وہ سب کرتے کراتے 11 بجے واپسی ہوئی تو گھر الٹا پڑا تھا۔ بھوک بھی سخت لگی۔ چائے کے کپ کے ساتھ ایک رس کھايا اور گھرکو صاف کيا تو دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گيا. کيا پکايا جائے؟ پہلے تو ولید دکان سے کسی بچے کے ہاتھ گھر جو بھيج ديتا تھا، وہ وہی پکا لیتی تھی یا وہ صبح بتا جاتا تھا کہ آج يہ پکا لينا۔ خیردال چاول بنا کر فارغ ہوئی تو بچے بھی آگئے۔ اباجی اور بچوں کو کھانا ديا، برتن دھوئے۔ اس دوران وليد کی اطلاع آ چکی تھی کہ وہ خيريت سے پہنچ چکا ہے۔ شام کو کمر سیدھی کرنے ليٹی ہی تھی کہ بيل بجی، ابا جی کے کوئی ملنے والے تھے۔ اب ان کے لیے چائے بنائی، گھر میں چائے کے ساتھ رکھنے کے لیے کچھ تھا نہيں، بچے مسجد گئے ہوۓ تھے، وليد ہوتا تو بھاگ کر لا ديتا۔ ليٹنے کی فرصت تو نہ ملی ليکن شام سر پر کھڑی تھی۔ اور وہی سب کچھ جو کل کيا تھا آج پھر کرنا تھا۔ ليکن اس نے وليد کو فون پر سب اچھا ہے، ٹھيک چل رہا ہے، کوئی مسئلہ نہيں کہہ کر اطمينان دلا تو ديا مگر اطمينان ابھی اس کی قسمت ميں تھا نہيں۔ رات کو ابا جی کو کھانسی کا دورہ پڑ گيا۔ کافی دیر سے آرام آ يا تو وہ سونے کے لیے کمرے ميں آ گئی۔
    اگلے دنوں ميں اسے لگنے لگا کہ وہ تو جيسے گھن چکر بن گئی ہے۔ باہر کے وہ سب کام جو ولید کرتا تھا اب اسے کرنے پڑتے تھے۔ گھر کے بہت سارے کاموں وہ اس کی مدد بھی کرتا تھا، اب وہ سب اسے ہی کرنے پڑتے تھے، ابا جی بوڑھے تھے، دیور اور بچے چھوٹے، وہ کتنی مدد کر سکتے تھے۔ 4 ، 5 ماہ کے اندر اندر اس کی ہمت جواب دينے لگی، اس کے انگ انگ ميں تکليف بیٹھ گئی، نہ وہ سکون سے سو سکے اور نہ دن کو آرام کر سکے۔ اس دوران ابا جی کو سپتال لے کر جانا، ان کی دوائياں لانا، بچوں کے ہوم ورک میں مدد، غرض کہ ہر کام اسے ہی کرنا تھا۔ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر تھک چکی تھی۔ رمضان بھی شروع ہو چکا تھا اور روٹين مزید سخت ہو گئی تھی، سحری، افطاری، عبادت، اور باقی سب کام۔ اسے شدت سے ولید کی کمی محسوس ہونے لگی۔ اسے اپنا فيصلہ غلط لگنے لگا۔ اچھی بھلی زندگی تھی۔ سکون و آرام تھا۔ سب کام ہو رہے تھے۔ سیر وتفریح بھی ہوتی تھی ليکن وليد کے جانے کے بعد جیسے زندگی جامد ہو گئی تھی۔ وہ چڑ چڑی ہو گئی تھی، بچے بدتميز ہو گئے تھے۔ ابا جی بےچارے اکيلے سارا دن کمرے ميں رہتے تھے۔
    عيد قريب تھی اور اس کے ہاتھ پاؤں پھولے جا رہے تھے کہ وہ سب کچھ کيسے کرے گی؟ آج اس نے وليد کو فون کیا تو سب اچھا ہے، نہيں کہا، پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور کہنے لگی ”وليد واپس آ جاؤ۔ ہم سب کو تمہاری ضرورت ہے، ہم یہاں اکٹھے مل کر بھلی بری گزار ليں گے۔ مجھے معاف کر دو۔ ميں نے ہی ناشکری کی اور ان دس ماہ میں مجھے اس کی کافی سزا مل گئی، تم واپس آ جاؤ۔ خدا کے ليے عید ہم سب کے ساتھ آ کر مناؤ، ہماری عيد تمہارے ساتھ ہی ہوگی.“
تحریر: ‎راحيلہ ساجد

Sunday, September 06, 2015

محبت


خالص محبت روح میں اتری اس روشبی کی مثل ہوتی ہے جو ظاہر اور باطن پر نور کر دیتی ہے، محبت اس نور کی روشنی ہے جو اس اصل نور کے سوا کسی اور نور کی محتاج نہیں، محبت اتنی ماورا ہے یہ جسکو چھوتی ہے اسے ماورا کر دیتی ہے یہ جب محبوب کو اپنے دھیان میں لے آۓ اس کا ذکر ارفع (رفعنا لک ذکرک) کر دیتی ہے، محبت دھوپ کی جھلستی تمازت میں سایہء ابر ہے، محبت عدو کی سازشوں میں قاصد کی پیغام بری ہے۔ محبت وسوسوں میں یار کے غافل ہوے جانے کا ڈر لیئے، محبوب کی جستجو کوبکو لیئے، محبوب کا دل پر دھرے ہاتھ کی تسلی ہے۔ محبت خیر ہے برکت ہے رحمت ہے، آزمائشوں میں سکینت ہے، محبت بددعا نہیں محبت دعا ہے، محبت اذیت و تکلیف نہیں محبت تکلیفوں میں راحت ہے، محبت صراط مستقیم ہے، محبت سلامتی ہے محبت ازل سے ہے ابد تک رہے گی، ہر شے فانی ہے الا اللہ، اللہ محبت ہے محبت کو بقا حاصل ہے، جو محبت میں ضم ہو گیا وہ وجود سے فنا ہو گیا، فقط محبوب رہ گیا، محبت اتنی خالص ہے کہ خواہش کی آزمائشوں میں ہر ہوس سے پاک کر دیتی ہے، تمنا سے آزاد، دلِ ناشاد کو شاد، برباد کو آباد، تکلیف کو راحت، وحشت کو سکون، خاک کو پاک کر دیتی ہے۔ باقی فقط ایک نقطہ بچتا ہے بس ایک حقیقت ۔۔ محبت۔!
محبت کی اپنی نگاہ ہے محبت کے اپنے مفہوم، محبت کی اپنی زباں ہے محبت کے اپنے اسلوب، محبت کا اپنا بیاں ہے محبت کے اپنے رموز، محبت کے اپنے استعارے ہیں اپنی تشبیہات۔۔! محبت چڑیا ہے روح کو چھوتی ہوا ہے، تو محبت چہچہاتی چڑیوں کو دیکھ کر ہوا کے تیز جھونکوں کو محسوس کرتے معصوم بچے کی نگاہ سے جھانکتی حیرانی ہے۔ محبت کی اپنی نگاہ ہے محبت کے اپنے مفہوم، محبت کی اپنی زباں ہے محبت کے اپنے اسلوب، محبت کا اپنا بیاں ہے محبت کے اپنے رموز، محبت کے اپنے استعارے ہیں اپنی تشبیہات۔۔! محبت چڑیا ہے روح کو چھوتی ہوا ہے، تو محبت چہچہاتی چڑیوں کو دیکھ کر ہوا کے تیز جھونکوں کو محسوس کرتے معصوم بچے کی نگاہ سے جھانکتی حیرانی ہے۔محبت چہروں اور آوازوں سے تھوڑی کی جاتی ہے۔ محبت تو رُوح سے کی جاتی ہے۔ دل سے کی جاتی ہے_ انسان سے کی جاتی ہے۔ اس کی خوبیوں سے کی جاتی ہے۔ محبت انسان کی غیر مرئی خصوصیات سے کی جاتی ہے۔ محبت ظاہری چیزوں سے نہیں کی جاتی ہے‘ کیونکہ یہ سدا رہنے والی چیزیں نہیں ہوتیں، یہ تو کبھی بھی کسی بھی وقت ساتھ چھوڑ جاتی ہیں۔