Tuesday, September 06, 2016

میری خوشی، میری عید تم سے ہے

    اسے گئے ہوئے دس ماہ ہوگئے تھے اور آمنہ کو یوں لگ رہا تھا کہ کتنے سال ہو گئے ہيں اسے گئے ہوئے۔ ان دس ماہ ميں کہاں کہاں اسے اس کی کمی محسوس نہيں ہوئی تھی۔ اس کو بھیجنے ميں بھی اس کا اپنا ہاتھ تھا، اس ليے کسی کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی۔
    وليد ايک سپر سٹور چلاتا تھا اور اللہ کے فضل سے اچھی گزر بسر بھی ہو رہی تھی، دو چھوٹے بچے تھے، بوڑھے والد تھے اور ایک چھوٹا بھائی 14 سال کا اور بيوی آمنہ۔ سب کچھ بہت اچھے سے چل رہا تھا، سب خوش تھے، مطمئن تھے کہ ایسے میں آمنہ کی ایک سہيلی ايک دن بازار ميں اس سے ٹکرا گئی۔ حال احوال پوچھا تو پتا چلا کہ اس کا مياں تو مسقط چلا گیا ہے اور ان کے تو وارے نیارے ہو چکے ہيں۔ بہت جلد وہ نيا بنگلہ بنوانے کا سوچ رہی ہے اور سیکنڈ ہينڈ گاڑی بھی خريد لی ہے۔ بچے بھی اچھے انگلش پرائیویٹ سکول ميں داخل ہو چکے ہيں اور زندگی پہلے سے بہت بہتر ہو چکی ہے۔
   آمنہ گھر تو آ گئی ليکن اس کا ذہن اس کی باتوں ميں اٹک گيا تھا۔ اگر وليد بھی باہر چلا جائے تو ہمارے ليے بھی کتنی آسانی ہو جائے۔ شام کو اس نے وليد کو اپنی سہيلی کے بارے ميں بتایا اور کہنے لگی کہ اگر تم بھی باہر چلے جاؤ تو ہماری زندگی کتنی اچھی ہو جائے نا۔ وليد نے ايک طرح سے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے چادر منہ پر تان لی اور کوئی جواب نہ ديا۔ دوسری شام آمنہ نے پھر اپنی بات دہرائی۔ ولید نے اس کو سمجھانے کے اندز ميں کہا کہ ”دیکھو، اللہ تعالی کا فضل ہے ہم بہت اچھے طريقے سے زندگی گزار رہے ہيں، کبھی فاقہ نہيں کيا، بچے اچھے سکول ميں جاتے ہيں۔ ميں تو مطمئن ہوں.“ مگر وہ آمنہ ہی کیا جو اپنی بات سے پيچھے ہٹ جائے۔ کھٹ سے بولی، ”ديکھو تمہارے پاس موٹرسائيکل ہے، دھوپ ہو یا بارش تم بچوں کو اس پر لے کر جاتے ہو۔ ابا جی کو ہسپتال لے کر جانا ہو تو بےچارے کتنی مشکل سے موٹرسائيکل پر بیٹھتے ہيں۔ سوچو اگر گاڑی ہو جائے گی تو کتنا آرام ہو جائے گا۔ بچوں کا سکول ہے تو اچھا مگرعام سا سکول ہے، کل جب بچے کسی اچھے اور بڑے سکول ميں جائيں گے توان کے مستقبل پر کتنا اچھا اثر پڑے گا؟ اس گھر ميں بچے ہمارے کمرے ميں سوتے ہيں، بڑا گھر ہوگا تو سب کا اپنا اپنا کمرہ ہو گا۔“ غرضیکہ آمنہ کے پاس ہر بات کی دليل موجود تھی۔
   آمنہ کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ ولید نے ايک دن اسے کہا کہ ”دیکھو، ميں چلا گيا تو تمہيں بہت مشکل ہو گی۔ بھائی چھوٹا ہے، بچے چھوٹے ہيں، ابا جی ضعيف ہيں۔ تم اکيلے کیسے سنبھالوگی سب کچھ؟“ ميں کر لوں گی سب کچھ، اب اتنا بھی مشکل نہيں۔ بچوں کو سکول وین لگوا دوں گی، بھائی کے پاس تو سائيکل ہے نا، اور اگر ابا جی نے ہسپتال جانا ہوا تو ٹيکسی سے چلے جائیں گے، اب تم بہانے مت بنائو۔ اس کی ضد کے ہاتھوں وليد مجبور ہو گيا اور پتا نہيں کن کن جتنوں سے اس نے ادھر ادھر کہلوا کر مسقط کا ويزا حاصل کر ليا۔ سٹور اس نے کرائے پر چڑھا دیا۔ جس دن اس نے جانا تھا، آمنہ تو اڑتی پھرتی تھی۔ ولید نے اسے کہا کہ ابھی بھی سوچ لو، بہت مشکل ہو جائے گی لیکن وہ بھی اپنے نام کی ہی تھی، نہیں مانی اور وہ بجھے دل کے ساتھ چلا گيا۔
    شام کو چھوٹے بيٹا گلی ميں کھيلتے ہوئے گرگيا، سر پر چوٹ لگ گئی، خون نکلنے لگا، آمنہ کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے، ٹيکسی کروا کر ہسپتال پہنچی، مرہم پٹی کروائی، گھر واپس آئی تو شام کا کھانا بنا تھا، ابھی وہ بنا کر فارغ ہوئی تو ابا جی کی دوائی کا وقت ہو گيا۔ انہيں دوائی دی، کچھ دير ان کی ٹانگيں دبائيں۔ پھر سارے دروازے بند کیے اور تھکن سے نڈھال بستر پر چلی آئی مگ نيند کوسوں دور تھی۔ وليد کمرے میں نہيں تھا تو اسے عجیب عجيب لگ رہا تھا۔ خير کروٹيں بدلتے بدلتے نیند آ ہی گئی۔
    فجر کے وقت ابا جی نے آواز دی تو اس سے تو ہلا بھی نہيں جا رہا تھا ليکن اٹھنا پڑا۔ نماز پڑھی تو دودھ والا آ گیا۔ وہ لے کر اندر رکھا، ابھی وہ گيا ہی تھا کہ کوڑا اٹھانے والے نے دستک دی، اسے کوڑا پکڑايا۔ اس سے پہلے یہ سب کام وليد کرتا تھا۔ اتنے ميں ابا جی کو ناشتے اور چائے کی طلب ہوئی، فٹافٹ ان کے ليے ناشتہ اور چاۓ بنائی۔ اس کے بعد بچوں کو جگايا۔ بھاگم بھاگ ناشتہ بنايا، ان کے لنچ باکس بنائے، خود ناشتہ کرنے نہيں بيٹھی کيونکہ اسے آج ان کے ساتھ ہی نکلنا تھا تاکہ سکول وين کا بندوبست کر سکے۔ وہ سب کرتے کراتے 11 بجے واپسی ہوئی تو گھر الٹا پڑا تھا۔ بھوک بھی سخت لگی۔ چائے کے کپ کے ساتھ ایک رس کھايا اور گھرکو صاف کيا تو دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گيا. کيا پکايا جائے؟ پہلے تو ولید دکان سے کسی بچے کے ہاتھ گھر جو بھيج ديتا تھا، وہ وہی پکا لیتی تھی یا وہ صبح بتا جاتا تھا کہ آج يہ پکا لينا۔ خیردال چاول بنا کر فارغ ہوئی تو بچے بھی آگئے۔ اباجی اور بچوں کو کھانا ديا، برتن دھوئے۔ اس دوران وليد کی اطلاع آ چکی تھی کہ وہ خيريت سے پہنچ چکا ہے۔ شام کو کمر سیدھی کرنے ليٹی ہی تھی کہ بيل بجی، ابا جی کے کوئی ملنے والے تھے۔ اب ان کے لیے چائے بنائی، گھر میں چائے کے ساتھ رکھنے کے لیے کچھ تھا نہيں، بچے مسجد گئے ہوۓ تھے، وليد ہوتا تو بھاگ کر لا ديتا۔ ليٹنے کی فرصت تو نہ ملی ليکن شام سر پر کھڑی تھی۔ اور وہی سب کچھ جو کل کيا تھا آج پھر کرنا تھا۔ ليکن اس نے وليد کو فون پر سب اچھا ہے، ٹھيک چل رہا ہے، کوئی مسئلہ نہيں کہہ کر اطمينان دلا تو ديا مگر اطمينان ابھی اس کی قسمت ميں تھا نہيں۔ رات کو ابا جی کو کھانسی کا دورہ پڑ گيا۔ کافی دیر سے آرام آ يا تو وہ سونے کے لیے کمرے ميں آ گئی۔
    اگلے دنوں ميں اسے لگنے لگا کہ وہ تو جيسے گھن چکر بن گئی ہے۔ باہر کے وہ سب کام جو ولید کرتا تھا اب اسے کرنے پڑتے تھے۔ گھر کے بہت سارے کاموں وہ اس کی مدد بھی کرتا تھا، اب وہ سب اسے ہی کرنے پڑتے تھے، ابا جی بوڑھے تھے، دیور اور بچے چھوٹے، وہ کتنی مدد کر سکتے تھے۔ 4 ، 5 ماہ کے اندر اندر اس کی ہمت جواب دينے لگی، اس کے انگ انگ ميں تکليف بیٹھ گئی، نہ وہ سکون سے سو سکے اور نہ دن کو آرام کر سکے۔ اس دوران ابا جی کو سپتال لے کر جانا، ان کی دوائياں لانا، بچوں کے ہوم ورک میں مدد، غرض کہ ہر کام اسے ہی کرنا تھا۔ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر تھک چکی تھی۔ رمضان بھی شروع ہو چکا تھا اور روٹين مزید سخت ہو گئی تھی، سحری، افطاری، عبادت، اور باقی سب کام۔ اسے شدت سے ولید کی کمی محسوس ہونے لگی۔ اسے اپنا فيصلہ غلط لگنے لگا۔ اچھی بھلی زندگی تھی۔ سکون و آرام تھا۔ سب کام ہو رہے تھے۔ سیر وتفریح بھی ہوتی تھی ليکن وليد کے جانے کے بعد جیسے زندگی جامد ہو گئی تھی۔ وہ چڑ چڑی ہو گئی تھی، بچے بدتميز ہو گئے تھے۔ ابا جی بےچارے اکيلے سارا دن کمرے ميں رہتے تھے۔
    عيد قريب تھی اور اس کے ہاتھ پاؤں پھولے جا رہے تھے کہ وہ سب کچھ کيسے کرے گی؟ آج اس نے وليد کو فون کیا تو سب اچھا ہے، نہيں کہا، پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور کہنے لگی ”وليد واپس آ جاؤ۔ ہم سب کو تمہاری ضرورت ہے، ہم یہاں اکٹھے مل کر بھلی بری گزار ليں گے۔ مجھے معاف کر دو۔ ميں نے ہی ناشکری کی اور ان دس ماہ میں مجھے اس کی کافی سزا مل گئی، تم واپس آ جاؤ۔ خدا کے ليے عید ہم سب کے ساتھ آ کر مناؤ، ہماری عيد تمہارے ساتھ ہی ہوگی.“
تحریر: ‎راحيلہ ساجد

No comments:

Post a Comment