Monday, September 19, 2016

پہنچا ہوا


  
   بندہ خدا کی جانب عازم سفر ہوتا ہے اور اُس تک پہنچنے کا قصد کر کے اٹھ کھڑا ہوتا ہے، تو بہت سے فریب راہ میں اس کی گھات لگا کر بیٹھتے ہیں۔ ’رہزنی‘ کی متعدد وارداتیں اس کے ساتھ پیش آنا ہوتی ہیں، ہر بار اِس کو خدا ہی بچائے تو بچائے.


     پہلے خواہشات اور شہوات ہزار روپ بھر کر اسکے راستے میں آتی ہیں۔ سیادت، عہدے، مناصب اس سے ’محض خدا کا قصد‘ چھڑوانے میں سب اپنی اپنی صلاحیت آزماتے ہیں۔ آسائشیں، بہتر سے بہتر مواقع، اونچے اونچے گھرانوں سے رشتے، اسکے ذہن پر حاوی ہونے کیلئے کافی ہوتے ہیں۔ سواریاں، محلات، پوشاکیں باقاعدہ ایک کھینچ رکھتی ہیں۔یہ سب چیزیں اسکے دامن سے لپٹتی ہیں تو اسکو آگے جانے کا چھوڑتی ہی نہیں۔ وہ یہیں رہ بسے تو اسکا سفر ختم، آگے بڑھتا چلا جانے پر ہی مصر ہے تو دامن کھینچ کر چھڑانا پڑتا ہے۔

      اسکی طلب صادق ہے اور وہ یہیں بیٹھ رہنا گوارا نہیں کرتا تو اگلی گھاٹی آتی ہے۔ یہاں آزمائش نے عقیدت کا روپ دھار لیا ہے۔ اب دست بوسی ہونے لگتی ہے۔ ارادتمندوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ مجلس میں وارد ہوں تو ہر آدمی حضرت کیلئے اپنی نشست چھوڑتا ہے۔ ’دعاؤں کی درخواستیں‘ ہونے لگتی ہیں۔ برکت کیلئے یہیں کا رخ ہوتا ہے، اور اپنے ہاں قدم رنجہ فرمانے کی درخواست بھی۔ یہ سب، اسکو گرا لینے کیلئے کافی ہوتا ہے۔ کوئی قسمت والا ہی اسکی تاب لائے تو لائے۔ وہ یہاں رک جائے تو یہی اس کا نصیب ہوتا ہے اور یہی اس کا حظ۔ 
     یہاں سے آگے بڑھے تو کرامات کی آزمائش آتی ہے۔ وہ ان میں الجھ جائے تو خدا کا قصد چلا جاتا ہے اور بس یہی اس کا حظ ٹھہرتا ہے۔
   
یہاں بھی نہیں رکتا تو ’اخلاص‘ اور ’تجرد‘ ہی، جوکہ اس کو یہ سب راستہ چلاتا آیا، اب اس کے حق میں ایک آفت کی صورت دھارتا ہے۔ ’تنہائی‘ کی کچھ ایسی لت پڑ جاتی ہے کہ شریعت اور جہاد کے بہت سے مصالح معطل ہوجاتے ہیں۔ ’خلوت‘ کی طلب حد سے بڑھ جاتی ہے اور خدا کی جانب توجہ کی ’دلجمعی‘ اور اس میں ’لذت‘ پانے کے عمل میں وقت کے نہایت اہم فرائض قربان ہونے لگتے ہیں۔

    وہ یہاں رک جائے تو خدا کی جانب سفر ختم اور تسکینِ نفس کا عمل شروع۔ اور اگر راستے کی کسی منزل پہ رکنے کا روادار نہیں اور خدا کی جانب مسلسل بڑھتا چلا جانے کا عزم برقرار رکھتا ہے، یوں کہ اسکی نظر اس بات پر جا ٹکے کہ خدا اس سے عین اس لمحے کیا چاہتا ہے، وہ خدا کے در پہ چاک و چوبند نوکر کی طرح حکم لینے کیلئے کھڑا ہوجاتا ہے کہ خدا ایک بار اشارہ کردے کہ اُس کی مرضی اور خوشنودی فلاں چیز یا فلاں ادا میں پائی جاتی ہے وہ اپنی پسند نا پسند کو پس پشت ڈال کر اُس کے اشارے کی سمت میں ہی بھاگ کھڑا ہوگا، خدا کا اس سے عین اس وقت جو تقاضا ہے اس کی نگاہ اس پر سے ہٹ جانا ایک لمحے کیلئے بھی اِسکو گوارا نہیں، خواہ وہ اس کے نفس کو بھائے یا اس کیلئے باعث تکلیف ہو، اس کی خلوت کو برقرار رکھے یا لوگوں کے ہجوم میں اِس کو دھکیل دے، اِس کا اپنا کوئی اختیار ہے ہی نہیں سوائے جو اِس کا آقا اور اِس کا مالک ہی اس کیلئے اختیار کرے، یہ اُس کا بندۂ محض کہ جس کا نفس اس کیلئے اتنا بے وقعت ہوچکا کہ مالک کی مرضی اور خوشنودی کے سامنے اس کی اپنی پسند کوئی سوال ہی نہیں رہ گیا بلکہ تو ایک بڑی جسارت ہے.... غرض آدمی خدا کے اشارے کی سمت بھاگ اٹھنے کا شیوہ چھوڑنے پر تیار نہیں تو یہ ہے وہ شخص جو خدا کو اپنا نصب العین بنا رکھنے اور اس کا قصد کرنے سے دستبردار نہیں۔ 
’پہنچا ہوا‘ کوئی ہے تو دراصل یہی شخص!

جس کا ’سفر‘ جاری، ’عاجزی‘ برقرار، ’توحید‘ سلامت اور ’قصد‘ زندہ ہے ’پہنچا ہوا‘ وہ ہے.... نہ کہ تھک کر بیٹھ رہنے والا اور اپنی کمائی یہیں بیٹھ کر کھانے والا!


(استفادہ از: الفوائد، مؤلفہ ابن القیمؒ، ص 172)

Tuesday, September 06, 2016

میری خوشی، میری عید تم سے ہے

    اسے گئے ہوئے دس ماہ ہوگئے تھے اور آمنہ کو یوں لگ رہا تھا کہ کتنے سال ہو گئے ہيں اسے گئے ہوئے۔ ان دس ماہ ميں کہاں کہاں اسے اس کی کمی محسوس نہيں ہوئی تھی۔ اس کو بھیجنے ميں بھی اس کا اپنا ہاتھ تھا، اس ليے کسی کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی۔
    وليد ايک سپر سٹور چلاتا تھا اور اللہ کے فضل سے اچھی گزر بسر بھی ہو رہی تھی، دو چھوٹے بچے تھے، بوڑھے والد تھے اور ایک چھوٹا بھائی 14 سال کا اور بيوی آمنہ۔ سب کچھ بہت اچھے سے چل رہا تھا، سب خوش تھے، مطمئن تھے کہ ایسے میں آمنہ کی ایک سہيلی ايک دن بازار ميں اس سے ٹکرا گئی۔ حال احوال پوچھا تو پتا چلا کہ اس کا مياں تو مسقط چلا گیا ہے اور ان کے تو وارے نیارے ہو چکے ہيں۔ بہت جلد وہ نيا بنگلہ بنوانے کا سوچ رہی ہے اور سیکنڈ ہينڈ گاڑی بھی خريد لی ہے۔ بچے بھی اچھے انگلش پرائیویٹ سکول ميں داخل ہو چکے ہيں اور زندگی پہلے سے بہت بہتر ہو چکی ہے۔
   آمنہ گھر تو آ گئی ليکن اس کا ذہن اس کی باتوں ميں اٹک گيا تھا۔ اگر وليد بھی باہر چلا جائے تو ہمارے ليے بھی کتنی آسانی ہو جائے۔ شام کو اس نے وليد کو اپنی سہيلی کے بارے ميں بتایا اور کہنے لگی کہ اگر تم بھی باہر چلے جاؤ تو ہماری زندگی کتنی اچھی ہو جائے نا۔ وليد نے ايک طرح سے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے چادر منہ پر تان لی اور کوئی جواب نہ ديا۔ دوسری شام آمنہ نے پھر اپنی بات دہرائی۔ ولید نے اس کو سمجھانے کے اندز ميں کہا کہ ”دیکھو، اللہ تعالی کا فضل ہے ہم بہت اچھے طريقے سے زندگی گزار رہے ہيں، کبھی فاقہ نہيں کيا، بچے اچھے سکول ميں جاتے ہيں۔ ميں تو مطمئن ہوں.“ مگر وہ آمنہ ہی کیا جو اپنی بات سے پيچھے ہٹ جائے۔ کھٹ سے بولی، ”ديکھو تمہارے پاس موٹرسائيکل ہے، دھوپ ہو یا بارش تم بچوں کو اس پر لے کر جاتے ہو۔ ابا جی کو ہسپتال لے کر جانا ہو تو بےچارے کتنی مشکل سے موٹرسائيکل پر بیٹھتے ہيں۔ سوچو اگر گاڑی ہو جائے گی تو کتنا آرام ہو جائے گا۔ بچوں کا سکول ہے تو اچھا مگرعام سا سکول ہے، کل جب بچے کسی اچھے اور بڑے سکول ميں جائيں گے توان کے مستقبل پر کتنا اچھا اثر پڑے گا؟ اس گھر ميں بچے ہمارے کمرے ميں سوتے ہيں، بڑا گھر ہوگا تو سب کا اپنا اپنا کمرہ ہو گا۔“ غرضیکہ آمنہ کے پاس ہر بات کی دليل موجود تھی۔
   آمنہ کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ ولید نے ايک دن اسے کہا کہ ”دیکھو، ميں چلا گيا تو تمہيں بہت مشکل ہو گی۔ بھائی چھوٹا ہے، بچے چھوٹے ہيں، ابا جی ضعيف ہيں۔ تم اکيلے کیسے سنبھالوگی سب کچھ؟“ ميں کر لوں گی سب کچھ، اب اتنا بھی مشکل نہيں۔ بچوں کو سکول وین لگوا دوں گی، بھائی کے پاس تو سائيکل ہے نا، اور اگر ابا جی نے ہسپتال جانا ہوا تو ٹيکسی سے چلے جائیں گے، اب تم بہانے مت بنائو۔ اس کی ضد کے ہاتھوں وليد مجبور ہو گيا اور پتا نہيں کن کن جتنوں سے اس نے ادھر ادھر کہلوا کر مسقط کا ويزا حاصل کر ليا۔ سٹور اس نے کرائے پر چڑھا دیا۔ جس دن اس نے جانا تھا، آمنہ تو اڑتی پھرتی تھی۔ ولید نے اسے کہا کہ ابھی بھی سوچ لو، بہت مشکل ہو جائے گی لیکن وہ بھی اپنے نام کی ہی تھی، نہیں مانی اور وہ بجھے دل کے ساتھ چلا گيا۔
    شام کو چھوٹے بيٹا گلی ميں کھيلتے ہوئے گرگيا، سر پر چوٹ لگ گئی، خون نکلنے لگا، آمنہ کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے، ٹيکسی کروا کر ہسپتال پہنچی، مرہم پٹی کروائی، گھر واپس آئی تو شام کا کھانا بنا تھا، ابھی وہ بنا کر فارغ ہوئی تو ابا جی کی دوائی کا وقت ہو گيا۔ انہيں دوائی دی، کچھ دير ان کی ٹانگيں دبائيں۔ پھر سارے دروازے بند کیے اور تھکن سے نڈھال بستر پر چلی آئی مگ نيند کوسوں دور تھی۔ وليد کمرے میں نہيں تھا تو اسے عجیب عجيب لگ رہا تھا۔ خير کروٹيں بدلتے بدلتے نیند آ ہی گئی۔
    فجر کے وقت ابا جی نے آواز دی تو اس سے تو ہلا بھی نہيں جا رہا تھا ليکن اٹھنا پڑا۔ نماز پڑھی تو دودھ والا آ گیا۔ وہ لے کر اندر رکھا، ابھی وہ گيا ہی تھا کہ کوڑا اٹھانے والے نے دستک دی، اسے کوڑا پکڑايا۔ اس سے پہلے یہ سب کام وليد کرتا تھا۔ اتنے ميں ابا جی کو ناشتے اور چائے کی طلب ہوئی، فٹافٹ ان کے ليے ناشتہ اور چاۓ بنائی۔ اس کے بعد بچوں کو جگايا۔ بھاگم بھاگ ناشتہ بنايا، ان کے لنچ باکس بنائے، خود ناشتہ کرنے نہيں بيٹھی کيونکہ اسے آج ان کے ساتھ ہی نکلنا تھا تاکہ سکول وين کا بندوبست کر سکے۔ وہ سب کرتے کراتے 11 بجے واپسی ہوئی تو گھر الٹا پڑا تھا۔ بھوک بھی سخت لگی۔ چائے کے کپ کے ساتھ ایک رس کھايا اور گھرکو صاف کيا تو دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گيا. کيا پکايا جائے؟ پہلے تو ولید دکان سے کسی بچے کے ہاتھ گھر جو بھيج ديتا تھا، وہ وہی پکا لیتی تھی یا وہ صبح بتا جاتا تھا کہ آج يہ پکا لينا۔ خیردال چاول بنا کر فارغ ہوئی تو بچے بھی آگئے۔ اباجی اور بچوں کو کھانا ديا، برتن دھوئے۔ اس دوران وليد کی اطلاع آ چکی تھی کہ وہ خيريت سے پہنچ چکا ہے۔ شام کو کمر سیدھی کرنے ليٹی ہی تھی کہ بيل بجی، ابا جی کے کوئی ملنے والے تھے۔ اب ان کے لیے چائے بنائی، گھر میں چائے کے ساتھ رکھنے کے لیے کچھ تھا نہيں، بچے مسجد گئے ہوۓ تھے، وليد ہوتا تو بھاگ کر لا ديتا۔ ليٹنے کی فرصت تو نہ ملی ليکن شام سر پر کھڑی تھی۔ اور وہی سب کچھ جو کل کيا تھا آج پھر کرنا تھا۔ ليکن اس نے وليد کو فون پر سب اچھا ہے، ٹھيک چل رہا ہے، کوئی مسئلہ نہيں کہہ کر اطمينان دلا تو ديا مگر اطمينان ابھی اس کی قسمت ميں تھا نہيں۔ رات کو ابا جی کو کھانسی کا دورہ پڑ گيا۔ کافی دیر سے آرام آ يا تو وہ سونے کے لیے کمرے ميں آ گئی۔
    اگلے دنوں ميں اسے لگنے لگا کہ وہ تو جيسے گھن چکر بن گئی ہے۔ باہر کے وہ سب کام جو ولید کرتا تھا اب اسے کرنے پڑتے تھے۔ گھر کے بہت سارے کاموں وہ اس کی مدد بھی کرتا تھا، اب وہ سب اسے ہی کرنے پڑتے تھے، ابا جی بوڑھے تھے، دیور اور بچے چھوٹے، وہ کتنی مدد کر سکتے تھے۔ 4 ، 5 ماہ کے اندر اندر اس کی ہمت جواب دينے لگی، اس کے انگ انگ ميں تکليف بیٹھ گئی، نہ وہ سکون سے سو سکے اور نہ دن کو آرام کر سکے۔ اس دوران ابا جی کو سپتال لے کر جانا، ان کی دوائياں لانا، بچوں کے ہوم ورک میں مدد، غرض کہ ہر کام اسے ہی کرنا تھا۔ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر تھک چکی تھی۔ رمضان بھی شروع ہو چکا تھا اور روٹين مزید سخت ہو گئی تھی، سحری، افطاری، عبادت، اور باقی سب کام۔ اسے شدت سے ولید کی کمی محسوس ہونے لگی۔ اسے اپنا فيصلہ غلط لگنے لگا۔ اچھی بھلی زندگی تھی۔ سکون و آرام تھا۔ سب کام ہو رہے تھے۔ سیر وتفریح بھی ہوتی تھی ليکن وليد کے جانے کے بعد جیسے زندگی جامد ہو گئی تھی۔ وہ چڑ چڑی ہو گئی تھی، بچے بدتميز ہو گئے تھے۔ ابا جی بےچارے اکيلے سارا دن کمرے ميں رہتے تھے۔
    عيد قريب تھی اور اس کے ہاتھ پاؤں پھولے جا رہے تھے کہ وہ سب کچھ کيسے کرے گی؟ آج اس نے وليد کو فون کیا تو سب اچھا ہے، نہيں کہا، پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور کہنے لگی ”وليد واپس آ جاؤ۔ ہم سب کو تمہاری ضرورت ہے، ہم یہاں اکٹھے مل کر بھلی بری گزار ليں گے۔ مجھے معاف کر دو۔ ميں نے ہی ناشکری کی اور ان دس ماہ میں مجھے اس کی کافی سزا مل گئی، تم واپس آ جاؤ۔ خدا کے ليے عید ہم سب کے ساتھ آ کر مناؤ، ہماری عيد تمہارے ساتھ ہی ہوگی.“
تحریر: ‎راحيلہ ساجد