Thursday, August 01, 2024

اپنے دین سے وابستگی پر فخر کیجیے


اپنے دین سے وابستگی پر فخر کیجیے
تحریر: اسد قیوم بابؔر

اللّٰہ جس سے چاہے، اپنے دین کا کام لے، یہ اس کا انتخاب ہے، اس کی جانب سے رحمتِ خاص، فضل و کرم، عطا و بخشش ہے اور جس کو وہ منتخب کرے، وہ بے حد خوش نصیب ہے ۔ اس سعادت و سیادت کے ملنے پر انبیاء کرام علیہم السلام نے عاجزی و انکساری، تقویٰ و رستگاری، صبر و شکر گزاری کی روش کو اختیار کیا اور یہی ازل سے ان کے منہج کے پیروکار ربِ رحمٰن کے بندوں کا شیوہ و طریقہ کار رہا ہے اور یہی بعد میں آنے والوں کے لیے تا قیامت مشعلِ راہ اور قابلِ تقلید عمل ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ
۞ اَللّٰهُ یَجْتَبِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ یُّنِیْبُ 
اللہ جسے چاہتا ہے (جسے پسند کرتا ہے، اپنے دین کے لیے) اپنی طرف چن لیتا ہے اور جو (کوئی بھی سچے دل سے تائب ہو کر اس کی طرف) رجوع کرتا ہے اسے وہ لازماً اپنے فضل و کرم سے، رحمت و عطا سے) اپنی جانب (سے رہنمائی و) ہدایت (دے ہی) دیتا ہے ۔
(سورہ الشوریٰ : 13)
یہ اللّٰہ رب العزت کی طرف سے اپنے بندوں کے ساتھ خصوصی شفقت و محبت اور خاص بھلائی ہے ۔ پس رحمٰن کے بندوں کو اپنے پروردگار و پالنہار رب سے خیر و بھلائی طلب کرنی چاہیے ۔ اور اس بھلائی کا حصول ان کے لیے دنیا و مافیہا سے بہتر اور بے حد محبوب و مرغوب ہے ۔
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ "
[هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ]
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، تو اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے ۔“
[امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسنٌ صحیح ہے]
(بحوالہ: جامع الترمذي، حدیث نمبر : 2645)
پس دین سے وابستگی وہ نعمت و سعادت ہے جس کی اہمیت ہمیں وحی متلو (قرآنِ حکیم) و غیر متلو (حدیثِ مبارکہ) میں جتلائی و بتلائی جا رہی ہے، گویا ایک تاکید ہے، بھرپور ترغیب ہے کہ اس عزتوں و رفعتوں کے حامل دین سے جڑ جاؤ کہ رب کے ہاں اگر کوئی مقبول ترین وابستگی ہے تو وہ اس دینِ مبین سے جڑ جانا ہے ۔ اور جس چیز کی اہمیت جتلائی جائے وہ یقیناً قابلِ فخر ہوتی ہے کہ اس سے رشتہ و تعلق روحانی انبساط و دیرپا خوشی سے سرشاری کا باعث ہے ۔
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ محض ترغیب نہیں دلائی گئی بلکہ خالقِ کائنات کی جانب سے واضح طور پر ڈرا بھی دیا گیا، اپنے بندوں کو بتلا بھی دیا گیا کہ اس وابستگی کے علاوہ باقی سب گھاٹے کا سودا ہی ہے اور عند اللّٰہ ہر باطل دین کا اختیار کرنا انتہائی ناپسندیدہ اور ناقابلِ قبول ہے ۔
إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ
بے شک (پسندیدہ ترین) دین تو اللّٰہ کے نزدیک اسلام ہی ہے ۔
 (سورہ آلِ عمران : 19)
 ۞ وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ 
اور جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرے گا، اس (کے اعمال میں) سے کچھ بھی قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ( نارِ جہنم کا ایندھن بننے والوں میں سے اور بھاری) خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گا ۔
(سورہ آلِ عمران : 85)
ان آیاتِ بینات سے جہاں ہمیں دین سے ایک مضبوط وابستگی و پیوستگی کا سبق ملتا ہے وہاں ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ ہمیں اپنے دین پر، اس سے وابستگی پر فخر کرنا سیکھ لینا چاہیے ۔ دیگر بے وقعت چیزوں کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی دیکھنے کی ضرورت نہیں ۔
بالخصوص اے نوجوانانِ امت! آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس امت کے مستقبل کے معمار ہیں ۔ آپ نے مغربی تہذیب اور خود ساختہ تہذیب و معاشرت کے مرعوبانہ رویوں سے نجات حاصل کر کے مبنی بر قرآن و سنت، آسان و سادہ تعلیماتِ اسلام پر عمل پیرا ہونا ہے ۔ آپ نے اس دین سے جڑی ہر شے کی خود بھی قدر کرنی ہے اور قول و عمل سے باقی امت کو بھی دعوت دینی ہے، دیگر فضول و لایعنی قسم کی خرافات و رسومات، عادات و بری بدعات، معمولات سے جتنی جلدی ممکن ہو، نجات حاصل کرنی ہے کہ یہ راہِ سعادت میں رکاوٹیں ہیں جن کو ہٹانا ہر طالبِ صادق کے لیے لازم ہے ۔ آپ کو یہ جو اسلام کے ساتھ وابستگی کی نعمت عطا کی گئی ہے، اس انمول ترین نعمتِ عظمیٰ کا نعم البدل تو کوئی بیش بہا قیمتی خزانہ بھی نہیں ہو سکتا ۔
ہمیں اپنے معاشروں میں عمومی طور پر یہی نظر آئے گا کہ عوام الناس اپنی زندگیاں سطحی چیزوں کے ہی فکر و خیال میں (کہ فلاں کیا سوچے گا کہ اس بظاہر چمکیلی و خوشنما اور اندر سے کھوکھلی اور بدنما مادی تہذیب کو چھوڑ کر ہم نے ریا و تصنع سے پاک انبیاء کرام کی لائی ہوئی عاجزی و سادگی پر مبنی تہذیب کو کیوں اختیار کر لیا)، مادی ضروریات (کہ فلاں فلاں نے تو پچاس ساٹھ سال کی زندگی کے لیے بہت بڑا محل کھڑا کر لیا، بہت زیادہ مال و اسباب اکٹھے کر لیے اور ہم فاستبقوا الخیرات کی دوڑ میں لگ گئے تو شاید فاستبقوا المال کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے، اس سب) کے ملال میں ہی گنوا دیتے ہیں ۔ حالانکہ یہ سطحی چیزیں اس قابل بھی نہیں ہوتیں کہ انہیں زیرِ بحث لایا جائے ۔
خِیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂِ دانشِ فرنگ
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
خاتم النبیین صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس سب کی حقیقت اختصار کے ساتھ مدلل و جامع انداز میں کچھ یوں بیان کر دی تھی ۔
" أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا مَلْعُونَةٌ، مَلْعُونٌ مَا فِيهَا إِلَّا ذِكْرُ اللَّهِ وَمَا وَالَاهُ وَعَالِمٌ أَوْ مُتَعَلِّمٌ "
 ” بیشک دنیا ملعون ہے اور جو کچھ دنیا میں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ کی یاد اور اس چیز کے جس کو اللہ پسند کرتا ہے، یا عالم (علم والے) اور متعلم (علم سیکھنے والے) کے ۔ “
(بحوالہ: جامع الترمذي، حدیث نمبر 2322)
یہ سب کچھ روزِ روشن کی طرح عیاں ہونے کے باوجود بھی پتا نہیں کیوں پھر بھی اکثر لوگ جہالت و لاعلمی کا شکار ہیں اور بے حد عزتوں و رفعتوں والے دین کو چھوڑ کر عام، حقیر اور ادنیٰ چیزوں میں الجھے ہوئے ہیں ۔ حالانکہ عزت صرف اطاعت و محبتِ الٰہی میں ہے ۔ اور ساری انسانیت کی آبرو و بقا حضورِ پاک جنابِ محمدِ مصطفیٰ صلی الله عليه وآلہ وسلم آپ کی ذاتِ مبارکہ سے عشق و محبت میں اور آپ کی لائی ہوئی شریعت مطہرہ سے والہانہ وابستگی اور کامل اتباع میں ہے ۔
ہمیں اب کیا طریقہ کار اختیار کرنا ہے، یہ متعین کرنا بہت ضروری ہے ۔ ہمیں کسی بھی معاشرتی رویے سے بددل نہیں ہونا، بلکہ کائنات کے بہترین ترین نفوس گروہِ انبیاء، خود خاتم النبیین صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اقوال و افعال کو اپنی زندگیوں کا اس طرح حصہ و خاصہ بنانا ہے اور ان کے نقوش ہائے پا کو جسم و روح، دل و دماغ میں نقش کرنا ہے جس طرح اصحابِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کیا تھا ۔  طوالت کے پیشِ نظر چند واقعات اختصار کے ساتھ ذکر کیے جا رہے ہیں ۔ ان سے ملنے والے اسباق کو ہم نے اپنی زندگیوں میں نافذ العمل کرنا ہے ۔
حضرت عمرِ فاروق رضی اللّٰہ عنہ سے وابستہ ایک واقعہ کچھ یوں ہے کہ جب حضرت حفصہ رضی اللّٰہ عنہا نے آپ سے کہا کہ اب خدا نے مرفہ الحالی عطا فرمائی ہے اس لیے آپ کو نرم لباس اور نفیس غذا سے پرہیز نہیں کرنا چاہیے، تو عمرِ فاروق رضی اللّٰہ عنہ کا جواب کچھ یوں تھا کہ جانِ پدر! آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عسرت اور تنگ حالی کو بھول گئیں، خدا کی قسم! میں اپنے آقا صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نقشِ قدم پر چلوں گا تا کہ آخرت کی فراغت اور خوش حالی نصیب ہو، اس کے بعد دیر تک آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زہد و تقویٰ، دنیا سے بے نیازی کا تذکرہ کرتے رہے، یہاں تک کہ حضرت حفصہ رضی اللّٰہ عنہا کا دل پسیج گیا اور وہ رونے لگیں ۔
(بحوالہ: کنزالعمال، ج 6 : 236)
حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰہ عنہ کے تقویٰ کا یہ عالم تھا آپ نے عمر بھر گھر نہیں بنایا، جہاں کہیں دیوار یا درخت کا سایہ ملتا، پڑے رہتے، ایک شخص نے اجازت چاہی کہ میں آپ کے لیے مکان بنا دوں؟ فرمایا: مجھ کو اس کی حاجت نہیں، وہ پیہم اصرار کرتا رہا، آپ برابر انکار کرتے رہے، آخر میں اُس نے کہا کہ آپ کی مرضی کے مطابق بناؤں گا ۔ فرمایا: وہ کیسا؟ عرض کیا کہ اتنا مختصر کہ کھڑے ہوں تو سر چھت سے مل جائے اور اگر آپ لیٹیں تو پاؤں دیواروں سے جا لگیں، فرمایا: خیر اس میں کوئی مضائقہ نہیں؛ چنانچہ اس نے ایک جھونپڑی بنادی ۔              
(بحوالہ: استیعاب : ۲/۵۷۶)
حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللّٰہ عنہ کا زہد و تقویٰ بھی مثالی تھا ۔ آپ شام کے گورنر تھے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ جب شام تشریف لائے تو انہوں نے اصرار فرمایا کہ میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللّٰہ عنہ، آپ کی رہائش دیکھنا چاہتا ہوں ۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللّٰہ عنہ امیر المومنین کو لے کر چلے ، شہر کے اندر سے گزر رہے تھے۔ جاتے جاتے جب شہر کی آبادی ختم ہو گئی تو حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ نے پوچھا کہ آپ ہمیں کہاں لے جا رہے ہیں؟ حضرت ابوعبیدہ رضی اللّٰہ عنہ نے جواب دیا کہ بس اب تو قریب ہے ۔ چنانچہ پورا دمشق شہر جو دنیا کے مال و اسباب سے جگ مگ کر رہا تھا، گزر گیا تو آخر میں لے جا کر کھجور کے پتوں سے بنا ہوا ایک جھونپڑا دکھایا، اور فرمایا کہ امیر المومنین میں اس میں رہتا ہوں ۔ جب حضرت فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنہ اندر داخل ہوئے تو چاروں طرف نظریں گھما کردیکھا تو وہاں سوائے ایک مصلے کے کوئی چیز نظر نہیں آئی ۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنہ نے پوچھا کہ اے ابو عبیدہ! آپ اس میں رہتے ہیں؟ یہاں تو کوئی ساز و سامان ،کوئی برتن، کوئی کھانے پینے اور سونے کا انتظام کچھ بھی نہیں ہے، آپ یہاں کیسے رہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ امیر المومنین! الحمدللہ! میری ضرورت کے سارے سامان میسر ہیں، یہ مصلیٰ ہے، اس پر نماز پڑھ لیتا ہوں، اور رات کو اسی پر سو جاتا ہوں اور پھر اپنا ہاتھ اوپر چھپر کی طرف بڑھایا اور وہاں سے ایک پیالہ نکالا، جو نظر نہیں آ رہا تھا اور وہ پیالہ نکال کر دکھایا کہ اے امیر المومنین! یہ برتن ہے ۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنہ نے جب اس برتن کو دیکھا تو اس میں پانی بھرا ہوا تھا اور سوکھی روٹی کے ٹکڑے بھیگے ہوئے تھے اور پھر حضرت ابوعبیدہ رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ اے امیر المومنین! میں دن رات تو حکومت کے سرکاری کاموں میں مصروف رہتا ہوں، کھانے وغیرہ کے انتظام کرنے کی فرصت نہیں ہوتی، ایک خاتون میرے لئے دو تین دن کی روٹی ایک وقت میں پکا دیتی ہے، میں اس روٹی کو رکھ لیتا ہوں اور جب وہ سوکھ جاتی ہے تو میں اس کو پانی میں ڈبو دیتا ہوں اور رات کو سوتے وقت کھا لیتا ہوں۔ بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں ۔حضرت فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنہ نے یہ حالت دیکھی تو آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ اے امیر المومنین! میں تو آپ سے پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ میرا مکان دیکھنے کے بعد آپ کو آنکھیں نچوڑنے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا ۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابوعبیدہ! اس دنیا کی ریل پیل نے ہم سب کو بدل دیا، مگر خدا کی قسم تم ویسے ہی ہو جیسے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھے اس دنیا نے تم پر کوئی اثر نہیں ڈالا ۔
(ماخوذ از: اصابہ : 4/12)
قبولِ اسلام کے بعد تو حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی تو ساری زندگی ہی تبدیل ہو کر رہ گئی ۔ مزاج نہایت لطافت پسند تھا، اسلام قبول کرنے سے پہلے عمدہ سے عمدہ پوشاک اور بہتر سے بہتر عطریات استعمال فرماتے،حضرمی جوتا جو اس زمانہ میں صرف امراء کے لیے مخصوص تھا وہ ان کے روز مرہ کے کام میں آتا، غرض ان کے وقت کا اکثر حصہ آرائش، زیبائش اور زلفِ مشکیں کے سنوارنے میں بسر ہوتا تھا، لیکن جب اسلام لائے تو شرابِ توحید نے کچھ ایسا مست کر دیا کہ تمام تکلفات بھول گئے، ایک روز دربارِ نبوت میں اس شان سے حاضر ہوئے کہ جسم پر ستر پوشی کے لیے صرف ایک کھال کا ٹکڑا تھا جس میں جا بجا سے پیوند لگے ہوئے تھے، صحابہ کرام ؓ نے دیکھا تو سب نے گردنیں جھکا لیں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا، الحمدللّٰہ! اب دنیا اور تمام اہلِ دنیا کی حالت بدل جانی چاہیے، یہ وہ نوجوان ہے جس سے زیادہ مکہ میں کوئی ناز پروردہ نہ تھا لیکن نیکو کاری کی رغبت اور خدا اور رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت نے اس کو تمام چیزوں سے بے نیاز کر دیا ۔
زندگی یوں شانِ بے نیازی سے گزری اور شہادت کا منظر بھی ایسا کہ کوئی قلبِ سلیم کا حامل شخص جب اس کا تذکرہ سنے تو آنکھوں کو بھگوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ غزوہِ احد میں لڑائی کے خاتمہ پر آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت مصعب بن عمیر رضی اللّٰہ عنہ کی لاش کے قریب کھڑے ہوئے اور یہ آیت تلاوت فرمائی ۔
مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيۡهِ‌ۚ فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ قَضٰى نَحۡبَهٗ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّنۡتَظِرُ‌ ۖ وَمَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِيۡلًا
مسلمانوں میں کچھ وہ مرد ہیں جنہوں نے اللّٰہ سے کیا ہوا وعدہ سچا کر دکھایا تو اُن میں کوئی اپنی منت پوری کر چکا اور کوئی راہ دیکھ رہا ہے اور وہ ذرا نہ بدلے ۔ (سورہ الاحزاب : 23)
پھر لاش سے مخاطب ہوکر فرمایا " میں نے تم کو مکہ مکرمہ میں دیکھا تھا جہاں تمھارے جیسا حسین و خوش پوشاک کوئی نہ تھا، لیکن آج دیکھتا ہوں کہ تمھارے بال اُلجھے ہوئے ہیں اور جسم پر صرف ایک چادر ہے " پھر ارشاد ہوا ۔ " بیشک خدا کا رسول گواہی دیتا ہے کہ تم لوگ قیامت کے دن بارگاہِ خداوندی میں حاضر ہو گے ۔ " اس کے بعد غازیانِ دین کو حکم ہوا کشتگانِ راہ خدا کی آخری زیارت کر کے سلام بھیجیں اور فرمایا " قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ روزِ قیامت تک جو کوئی ان پر سلام بھیجے گا وہ اس کا جواب دیں گے ۔ " اس زمانہ میں غربت و افلاس کے باعث شہیدانِ ملت کو کفن تک نصیب نہ ہوا، حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی لاش پر صرف ایک چادر تھی جس سے سر چھپایا جاتا تو پاؤں برہنہ ہو جاتے اور پاؤں چھپائے جاتے تو سر کھل جاتا، بالآخر چادر سے چہرہ چھپایا گیا، پاؤں پر اذخر کی گھاس ڈالی گئی ۔
(بحوالہ: طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث : 82، 86)
انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگیاں ہوں یا خود خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ کی حیاتِ طیبہ یا اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاوٹ و تصنع سے پاک زندگیاں! ہمارے لیے ان سب میں عملی نمونہ جات اور بہترین اسباق موجود ہیں ۔ ان پاکیزہ نقوش ہائے پا کو جب آپ اپنے دل و دماغ میں نقش کر لیں گے تو کوئی بھی فتنہ آپ کے لیے پاکیزہ زندگی بسر کرنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکے گا ۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں ان سب اسباق کو اپنی زندگیوں کا حصہ و خاصہ بنانے کی توفیق و ہمت بخشے ۔ میں نے تو اپنی بساط بھر آپ تک پیغام پہنچا دیا ۔ امید ہے کہ آپ نہ صرف اس پیغام کو عملی طور پر اپنی زندگیوں میں ناٖفذ العمل کریں گے بلکہ امت سے خیر خواہی کے جذبے کو پیشِ نظر رکھ کر یہ پیغام دوسروں تک بھی پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں گے ۔ اللہ رب العزت ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔ اللہم آمین 🍁
جلانا ہے مجھے ہر شمعِ دل کو سوزِ پنہاں سے
تری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑوں گا
اسد قیوم بابر — 
یکم اگست 2024
من_المصحف_الکریم#
باتیں_دلوں_کی#