Saturday, September 06, 2014

نیرنگ: فوک وزڈم

نیرنگ: فوک وزڈم


   یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ایف ایس سی میں تھا - ہم لوگ مظفرآباد (آزاد کشمیر) میں رہتے تھے - بے فکری کے دن تھے - سکول کی بندشوں سے نئے نئے آزاد ہوکر ہم لوگ کالج کی کھلی فضاؤں میں محو پرواز تھے - اس زمانے میں ہم تین دوست ہوا کرتے تھے جن میں سے ایک کے اہل خانہ سیالکوٹ میں مقیم تھے لہٰذا اسکا گھر ہمارا فطری ٹھکانا ہوتا تھا

    اس دوست کے والد (الله انہیں جنت نصیب فرمائے) اس وقت ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پر تھے انکی عمومی شہرت ایک انتہائی سخت گیر افسر اور انسان کی تھی ہمارے دوست کے ہاں ایک کافی پرانے اور عمررسیدہ ملازم تھے جنکا نام زمان تھا اور انہیں صوفی زمان کے نام سے جانا جاتا تھا - ہم لوگ انہیں زمان پاء جی کہا کرتے تھے- وہ دور بھی کچھ اچھا تھا اورعمر رسیدہ اور پرانے ملازمین کی عزت ظاہراً ہی نہیں بلکہ دلی طور پر کی جاتی تھی اور انہیں گھر کے ایک فرد کی حیثیت ہی دی جاتی تھی - زمان پاء جی ہمارے ساتھ بڑے بے تکلف تھے - دیہاتی پس منظر کا ہونے کی وجہ سے زمان پاء جی کی طبیعت میں صاف گوئی اور اکھڑ پن بھی بدرجہ اتم پایا جاتا تھا - انکے اکھڑ پن کا یہ عالم تھا کہ میرے دوست کے والد صاحب جن سے بحث یا اختلاف کا انکے ماتحت تو کیا ہم منصب بھی تصور نہیں کرسکتے تھے زمان پاء جی ان سے بھی وقتاً فوقتاً بحث اور اختلاف فرمایا کرتے تھے اور زیرعتاب آنے سے بھی بچ جایا کرتے تھے

   جوانی کے فطری تقاضوں کے پیش نظر ہمارے معمولات میں گاڑیوں میں بے مقصد گھومنا بھی ہوتا تھا جو اتنا  بے مقصد بھی نہیں تھا بلکہ ایک خاص مشن جسے عرف عام میں "پونڈی" کے طور پر جانا جاتا ہے کے تحت ہوتا تھا - اس زمانے کے مظفر آباد میں صرف دو ہی قابل ذکر جگہیں ایسی تھیں جہاں یہ مقصد حاصل کیا جاسکتا تھا جن میں سے ایک شہر کا اکلوتا گرلز ڈگری کالج جسکے ساتھ ہی گرلز ہائی سکول متصل تھا اور دوسرا شہر کی واحد زنانہ مارکیٹ یعنی مدینہ مارکیٹ تھی - سو عمومی طور پر ہمارے روٹ میں یہ دونوں مقامات شامل ہوتے تھے - اکثر بازار سے سودا سلف وغیرہ لانے کے لئے زمان پاء جی بھی ہمارے ساتھ ہی گاڑی میں ہوتے اور بظاہر غیر متعلق نظر آتے ہوئے بھی ہم پر نظر رکھے ہوتے

  ایک دن ہم دوست کے گھر بیٹھے ہوئے تھے زمان پاء جی حسب معمول ہمارے لئے چائے لیکر آئے اور حسب عادت باتوں میں حصہ بھی لینا شروع کر دیا - باتوں باتوں میں زمان پاء جی اپنی پہاڑی زبان میں کہنے لگے "یرا تساں کو میں ایک بات سناواں؟" ہم نے کہا جی ضرور
اب جو قصہ انہوں نے سنایا میں اسے اردو میں سینسر کر کے سناتا ہوں

   ایک پہاڑی بکری چراگاہ پہنچی جہاں ایک گیدڑ کا بچہ جو بہت دیر سے بھوکا تھا، پہلے سے موجود تھا - بکری نے چرنا شروع کردیا - گیدڑ کا بچہ جس نے پہلی دفعہ پہاڑی بکری دیکھیتھی اسے پوری بکری میں سے جو چیز قابل توجہ نظر آئی وہ بکری کے لٹکتے ہوئے تھن تھے - اس نے پہلی بار ایسی چیز دیکھی تھی - اسے بھوک بھی بہت لگی ہوئی تھی اسے لگا کہ یہ ٹوٹ کرابھی نیچے گر جائیں گے اور میں انہیں کھا لونگا کیونکہ بکری کی جسامت کے پیش نظر اس پر حملہ تو ممکن نہیں - بکری اپنی دھن میں چرتی رہی اور گیدڑ بھوکے پیٹ نرم گلابی گوشت کے خوابوں میں مست پیچھے پیچھے چلتا رہا - ہوتے ہوتے شام ہوگئی بکری نے اپنی راہ لی اور گیدڑ نڈھال ہوکر وہیں گر گیا

   تم لوگوں کی مثال بھی اس گیدڑ جیسی ہے کہ گاڑیوں میں پیچھے پیچھے پھرتے رہتے ہو ہر لڑکی آرام سے گھر چلی جاتی ہے اور تم تھک کے واپس اپنےگھر، ملنا ملانا کچھ بھی نہیں اور خواری الگ
اس وقت تو ہم نے زمان پاء جی کی بات سنی ان سنی کردی لیکن کچھ ہی عرصے میں اس کی بہت اچھی طرح سمجھ آگئی

   حالیہ دنوں میں میڈیا کی جنگ اور سیاسی جماعتوں کی پھرتیاں دیکھ کر نہ جانے کیوں زمان پاء جی کا سنایا ہوا قصہ یاد آ رہا ہے مگر ہماری طرح اس وقت یہ قصہ کسی کو سمجھ نہیں آئے گا اور جس وقت سمجھ آئیگا اس وقت اس کا کوئی خاص مصرف نہیں رہے گا 

Friday, September 05, 2014

ذوقِ طلب

                      

                                    




  میری طلب کسی اور سے نہیں، اپنے آپ سے کرنا! مجھے کسی اور کے پاس نہیں، اپنے ہی پاس ڈھونڈنا! میں تمہیں وہاں مل جاؤں تو ٹھیک ورنہ اور کہیں نہ ملوں گا! کسی کے پاس کیوں جاؤ؟ تمہارے سب سے قریب میں ہی ہوں، تمہیں میں وہاں نہیں ملا تو بغور دیکھو کوئی خلل تمہارے ہی اندر یا کہیں آس پاس ہوگا! ’دور‘ جانا عبث ہے!!!

        وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لِي وَلْيُؤْمِنُواْ بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ !!!

     ’گھر‘ خالی کر لو، میں آبسوں گا!!!    قسمت والے ’قربت‘ کا جو لطف لیتے ہیں، اگر کہیں تم اس کا اندازہ کر لو تو اپنی اِس ’دوری‘ پہ تمہارے یہاں ماتم کی صفیں بچھ جائیں!!!
      جس کو راستہ طویل لگے، اس کے قدم آہستہ ہو ہی جاتے ہیں!!!
      ’معرفت‘ وہ بساط ہے جس پر ’منظورِ نظر‘ لوگوں کے سوا کسی کو پیر دھرنے کی اجازت نہیں!
        ’محبت‘ وہ نغمہ ہے جس پر وہی دل طرب میں آئے گا جو ہر دوسرے نغمے سے اچاٹ ہوچکا! ’محبت‘ ایک میٹھا لذیذ چشمہ ہے جس کے چاروں طرف تپتا صحرا ہے اور جس کی نشان دہی کیلئے ’بنی بنائی‘ پگڈنڈیاں نہیں پائی جاتیں! یہی وجہ تو ہے کہ اس تک کوئی کوئی پہنچتا ہے، البتہ ’طلبگار‘ اس تک پہنچے بغیر نہیں رہتے اور نہ کبھی اس کا راستہ بھولتے ہیں!
      سبحان اللہ! جنت کی دلہن ’رشتے‘ کیلئے آنے والوں کی راہ میں سج کر بیٹھی، اور تو نے دیکھا ذوق والے اس کی مانگ بھرنے کیلئے ’مِہر‘ کا بندوبست کرتے بھاگے پھرتے ہیں.... خدائے رب العزت اپنے اسماءوصفات کی راہ سے قلوب پر جلو گر ہوا اور قسمت والے اُس کی طلب میں رات دن ایک کر چکے.... اور تو سدا کا بدبخت، جس نے اِس ’مردار‘ سے ہی فرصت نہ پائی!!!
      ’عبادت‘ کرنے والے کو شجرِ ’طوبیٰ ‘ کے تلے دم لینے سے پہلے آرام کہاں!؟ چشم تصور سے اپنے آپ کو اس کی چھاؤں میں ٹھاٹھ سے مجلسیں کرتا ہوا دیکھو، یہ سب محنت آپ سے آپ آسان ہوجائے گی! طالبِ صادق کو ’یوم المزید‘ سے پہلے قرار کہاں!؟ ذرا اس دن کا منظر اپنے سامنے لاؤ، اس کیلئے آج جو کچھ کر رہے ہو، نہایت بھلا لگنے لگے گا!     امام احمد سے پوچھا گیا: مومن کو آخر آرام بھی کبھی دیکھنے کو ملے گا؟        فرمایا: ہاں، جب جنت میں پہلا قدم دھر لےگا!

     اس مختصر زندگانی میں اُس کی جانب یک رخ رہو، مابعد الموت کے اربوں کھربوں سال وہ تمہیں کفایت کرتارہے گا!

    بہشت کی روحیں بڑی ہی عجیب نکلیں۔ قلوب کی سواریوں پر وہ سامان لادا کہ الامان والحفیظ! گویا دنیا خالی کر کے رکھ دیں گے! لاکھ فرمائشیں ہوئیں کہ راستے میں ذرا سامان کھولو تو۔ پر نہیں مانے۔ جواب دیا سامان بادشاہ کا ہے بادشاہ کے پاس جا کر کھلے گا! یہ قافلے چلے جاتے دیکھنا ہوں تو کبھی ان کو سحر کے وقت دیکھو! نسیمِ سحر شاید انہی کی راہ دیکھنے نکلتی ہے! دشتِ ہویٰ کو اقدامِ عزم سے یوں خوشی خوشی پار کر گئے کہ پتہ ہی نہ چلا! زیادہ نہیں چلنا پڑا، کہ کیا دیکھتے ہیں، واہ! منزل آگئی!!! شہرِ وصل میں پہنچے تو انعامِ ابد سامنے تھا!!! خلد کی راحت نے دور ہی سے استقبال کیلئے بازو پھیلا دیے!!!

     بادشاہ نے ہیرے جواہرات کے بے پناہ خزانے کسی بیابان میں رکھ چھوڑے ہیں، اور کسی کو ان کی خبر نہیں سوائے بادشاہ کے اپنے خاص لوگوں کے۔ ان خزانوں کا سراغ لگانا چاہو، تو بغور دیکھنا بادشاہ کے یہ خواص اور مقرب آدھی رات کو اٹھ کر بھلا کہاں جاتے ہیں! ان کے پیچھے پیچھے چل دو، تو بھی کچھ حرج نہیں!!!
         خزانوں کی کوئی حد تھوڑی ہے!!! 

   پہرہ داروں کیلئے شب بیداری کوئی بات نہ رہی؛ کہ جانتے ہیں ان کی ’جاگتے رہو‘ کی آوازیں بادشاہ تک جاتی ہیں!

     سلمہ بن دینارؒ کہتے ہیں:
         جو چیز تمہیں پسند ہے کہ وہ آخرت میں تمہارے ساتھ ہو اُس کو ابھی سے بُک کروا دو۔ ایسا نہ ہو تم چلے جاؤ اور یہ پیچھے رہ جائے! جس چیز کے آخرت میں تمہارے پاس پائے جانے سے تمہاری جان جاتی ہے اس سے آج ہی جان چھڑا لو۔ ایسا نہ ہو کہ جانے لگو تو سامان میں ساتھ ہی چلی جائے!(ماخوذ از الفوائد، مؤلفہ ابن قیم)

نفع بخش تجارت



      غروب آفتاب کے بعد جوں جوں تاریکی بڑھ رہی تھی، اس کے ساتھ ساتھ چاند بھی آسمان پر بلند ہو رہا تھا۔ نخلستانوں کے درمیان سے گزرنے والی سڑک جو مدینے کی طرف جاتی تھی، اب سنسان ہو چکی تھی۔ دور سے سرپٹ گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز اس سناٹے میں ہلکا ہلکا سا لرزہ پیدا کر رہی تھی۔ کھجور کے درختوں کے درمیان سے چھن کر آنے والی چاندنی بار بار گھڑ سوار کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ وہ کوئی ساٹھ سال کی عمر کا مضبوط جسم کا چاک و چوبند آدمی دکھائی دیتا تھا۔ لمبی مسافت کی تھکن اس کے چہرے پر ظاہر تھی۔ منزل کے قریب ہونے کی وجہ سے سوار نے اس کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دی تھیں۔ رفتہ رفتہ باغات کے درمیان اکا دکا مکانات اور حویلیاں بھی ابھرنے لگیں تھیں۔ حتی کہ وہ شہر میں داخل ہوگیا۔





    وہ گزرنے والی ہر گلی اور مکان کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا، جیسے کسی مکان کو تلاش کر رہا ہو۔ کبھی کسی مکان کے قریب گھوڑے کو روکتا لیکن پھر آگے چلنے کے لیے اس کی لگام ہلا دیتا۔ بازاروں اور چوراہوں میں آدمیوں کی آمدورفت ابھی جاری تھی۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی اسے پہچانتا نہ تھا۔اب وہ گھوڑے سے نیچے اتر آیا اور گھوڑے کی لگامیں ہاتھ میں پکڑ کر چلنے لگا۔ پھر ایک مکان کے سامنے وہ رک گیا۔ اس نے ذہن پر زور دیا۔ اس کی یاد داشت جاگی۔ خوشی اس کے چہرے پر ظاہر ہوئی اور پھر وہ زیر لب بڑبڑانے لگا: "یہی میرا گھر ہے۔ یہی میرا گھر ہے۔"دروازہ کھلا ہوا تھا۔ شوق سے وہ بلا اجازت ہی اندر داخل ہوگیا۔بالا خانے پر موجود گھر کے مالک نے نیچے صحن میں گھوڑے کی آہٹ سنی تو اس نے کھڑکی سے نیچے دیکھا۔ وہاں ایک مسلح اجنبی کھڑا تھا۔ وہ غضب ناک ہو کر نیچے اتر آیا۔ وہ تیس سال کی عمر کا تنومند جوان دکھائی دیتا تھا۔ آتے ہی اجنبی کو پکڑا اور سخت لہجے میں کہا: "اے دشمن خدا، رات کی تاریکی میں تو گھر کے اندر کیوں آیا؟"اجنبی گھبرا گیا، وہ صرف اتنا ہی کہہ پا رہا تھا: "دیکھو! میں اسے اپنا گھر سمجھ کر اندر آگیا اور سچ مچ یہ میرا ہی گھر ہے۔"لیکن گھر کا مالک گرج رہا تھا: "میں تجھے دیکھو لوں گا۔"دونوں کے باہم الجھنے سے شور زیادہ بلند ہوا تو چند پڑوسی بھی آگئے۔ انھیں دیکھ کر اجنبی بجائے گھبرانے کے زور زور سے کہنے لگا:"لوگو! کیا یہ میرا گھر کسی دوسرے کے قبضے میں چلا گیا ہے؟ کیا میری بیوی فوت ہوگئی ہے؟ تم میں سے کوئی بھی مجھے نہیں پہچانتا؟"پڑوسیوں کے ہجوم میں سے دو بزرگوں نے آگے بڑھ کر اسے پہچاننے کی کوشش کی تو اس نے کہا: "کیا تم بھول گئے کہ میں فروخ ہوں؟ کیا پڑوسیوں میں کوئی بھی فروخ کو پہچاننے والا اب مدینہ میں نہیں رہا جو تیس برس پہلے اسلامی لشکر کے ساتھ جہاد کے لیے گیا تھا۔۔۔۔؟"یہ بات سنتے ہی ہر کوئی اپنی جگہ پر دم بخود رہ گیا۔ مجمع پر ایک گہرا سکوت طاری ہوگیا جیسے ہجوم میں موجود ہر شخص یادداشت کے دھندلے مناظر میں کچھ تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔


        رحلت نبوی کے بعد چالیس برس گزر چکے تھے۔ اللہ کے حکم میں رکاوٹ بننے والے حکمرانوں کا عام لوگوں کے دلوں پر خوف اتارنے کے لیے اسلامی فوجیں آگے ہی آگے بڑھ رہی تھیں۔ انہی لشکروں میں سے ایک لشکر سجستان کو فتح کرنے کے لیے روانہ ہوا، جس کی قیادت ایک بزرگ صحابی ربیع بن زیاد حارثی رضی اللہ عنہ کر رہے تھے۔ ان کے ہمراہ فروخ نامی ان کا غلام بھی تھا۔سجستان پر فتح کا پرچم لہرانے کے بعد ماورائے النہر کے علاقے پر ان کی نگاہیں تھیں لیکن دریائے سیحوں کی خوں خوار موجیں ان کی راہ میں حائل تھیں۔ انھوں نے ازسرنو فوج ترتیب دی اور پھر اللہ کا نام لے کر موجوں کے سینے کو چیرتے ہوئے دریا عبور کرکے دشمن کے روبرو ہوگئے۔ جب میدان کارزار گرم ہوا تو ربیع بن زیاد حارثی کی جاں باز سپاہ نے شجاعت و بہادری کے ایسے جوہر دکھائے کہ دشمن کے پاؤں اکھڑ گئے۔ ان کے غلام فروخ نے بھی جنگی مہارت کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ سپہ سالار کی نگاہ میں اس کی عظمت دوبالا ہوگئی۔ مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور دریا عبور کرنے کے بعد چین کی جانب اسلامی فوجوں کے لیے راستہ کھل گیا۔سپہ سالار نے اپنے غلام فروخ کی بہادری سے متاثر ہو کر اسے آزاد کردیا اور اپنے حصے کے تمام اموال غنیمت بطور انعام دے کر اس کی عزت افزائی کی۔ اس کے دو سال بعد ہی ربیع حارثی اپنے رب سے جا ملے۔ جانباز مجاہد فروخ اموال غنیمت کا ڈھیر لیے مدینہ پہنچا تو اس وقت وہ زندگی کی تیس بہاریں دیکھ چکا تھا۔ اس نے سوچا کہ اب ایک گھر بنا لینا چاہیے۔ چنانچہ گھر خرید کر ایک خاتون سے شادی کر لی۔ مگر مجاہدانہ زندگی فروخ کی عادت بن چکی تھی۔ گھر میں بے کار پڑا رہنا اسے راس نہ آیا۔ اس دوران خراسان کے محاذ پر اسلامی لشکر کو کمک کی ضرورت پڑی تو حکومت وقت نے جہاد میں شامل ہونے کی اپیل کی۔ فروخ نے جھٹ فیصلہ کیا۔ ان دنوں مجاہدوں کے اہل و عیال کی ذمہ داری حکومت پر ہوتی تھی اور پورا لشکر صرف اور صرف حکومت ہی کی سرکردگی میں تیار ہوتا تھا۔ محض اپنی مرضی سے "پرائیویٹ جہاد" کا کوئی تصور نہ تھا۔ مگر پھر بھی بیوی بچوں اور گھر بار کو چھوڑنا بڑے دل گردے کا کام ہوتا تھا۔ چناںچہ فروخ نے اپنی نئی نویلی دلہن کو تسلی دی اور اسے ایک تھیلی دیتے ہوئے کہا: "دیکھو! اس میں تیس ہزار دینار ہیں۔ یہ حکومت نے مجھے خرچ کے لیے دیے ہیں۔ ان کو کسی نفع بخش تجارت میں لگا دینا۔ اسی سے اپنے اخراجات بھی پورے کرنا اور بچے کی پرورش اور تربیت کا انتظام بھی کرنا۔ حتی کہ میں جہاد سے واپس آجاؤں یا پھر اللہ میری تمنائے شہادت پوری کر دے۔"




     جہاد پر روانگی کے چھ ماہ بعد فروخ کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا۔ بچہ اتنا خوب صورت تھا کہ اس کو دیکھ کر ماں شوہر کی جدائی کا سارا غم بھول گئی۔ ماں نے بچے کا نام ربیعہ رکھا اور اسے لائق اساتذہ کی نگرانی میں دے دیا۔ بہت تھوڑے ہی دنوں میں بچے نے مکمل قرآن حفظ کر لیا اور احادیث کا بھی خاصا ذخیرہ یاد کر لیا۔ ماں جب بھی بچے کی علمی قابلیت میں ترقی دیکھتی، اس کے اساتذہ کے انعام و اکرام میں اضافہ کر دیتی۔ وہ چاہتی تھی کہ بچہ ایسا تعلیم یافتہ اور با اخلاق ہو جائے کہ باپ اگر دیکھے تو اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں۔ لیکن ایک مدت گزر گئی اور فروخ کی کوئی صحیح خبر اس کو نہ ملی۔اس کے بیٹے نے خدمت علم ہی کو اپنا مقصد زندگی بنا لیا۔ چنانچہ وہ مسجد نبوی کی علمی مجالس میں شریک ہونے لگا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم میں اس وقت سب سے معزز و محترم شخصیت حضرت انس رضی اللہ عنہ بن مالک کی تھی جو رسولۖ اللہ کے خادم خاص رہے تھے۔ صحابہ کے بعد تابعین میں سے وہ سعید بن مسیب جیسے علماء کے درس سے بطور خاص منسلک ہوگیا۔ تعلیم میں اس کی بے انتہا محنت سے اس کی شہرت عام ہوگئی۔ اب شاگردوں کی ایک بھیڑ اس کے گرد اکٹھی ہوگئی تھی۔اچانک بالا خانے کی کھڑکی سے ایک نسوانی آواز بلند ہوئی۔"انھیں چھوڑ دو بیٹا! انھیں چھوڑ دو۔"یہ گھر کے مالک کی ماں کی آواز تھی جو شور سن کر نیند سے بیدار ہو چکی تھیں۔ ماں کی آواز سن کر بیٹا نرم پڑ گیا۔ اتنے میں اس کی ماں نیچے اتر آئی اور کہا:"بیٹے! یہ تمھارے والد محترم ہیں اور اے ابو عبدالرحمان، یہ تمھارا بیٹا ربیعہ ہے۔" یہ سنتے ہی دونوں گلے مل گئے۔ ربیعہ نے باپ کے ہاتھ اور پیشانی چومی اور باپ کی محبت بیٹے پر نچھاور ہونے لگی۔

      فروخ تیس سال کے بعد آج اپنے گھر آیا تھا۔ وہ اپنی مجاہدانہ سرگزشت سنانے کے ساتھ ساتھ اپنی بیوی کے حالات بھی پوچھتا رہا اور پھر مستقبل کا منصوبہ سوچنے لگا۔ربیعہ کی ماں، دیکھو میرے پاس اس وقت چالیس ہزار دینار ہیں اور جو تیس ہزار دینار میں تمھیں دے گیا تھا، ان میں سے جو کچھ بچت ہے، اسے ان میں شامل کر لو تو اس سے ہم کچھ قابل کاشت رقبہ اور باغ خرید لیں گے تاکہ گزر بسر کا سہارا بن جائے۔بیوی نے اس بات کو ٹال دیا۔ خوشی کے اس موقع پر اسے یہی فکر کھائے جا رہی تھی کہ شوہر نے جو تیس ہزار دینار اس کے حوالے کیے تھے، وہ سب بچے کی تعلیم و تربیت پر خرچ ہوگئے۔ اب اگر شوہر کو یہ بات بتائی گئی تو کیا وہ یقین کر لے گا کہ اتنی بڑی رقم بچے کی تعلیم و تربیت ہی پر خرچ ہوگئی۔ کیا وہ یہ بات مان لے گا کہ اس کا بیٹا بہت زیادہ فراخ دل ہے۔ وہ ایک درہم بھی بچا کر نہیں رکھتا۔ مدینہ کے لوگ جانتے ہیں کہ وہ اپنے دوست احباب اور مستحق لوگوں پر کتنا زیادہ خرچ کرتا ہے۔ ربیعہ کی ماں انھی خیالات میں پیچ و تاب کھا رہی تھی کہ اس کے شوہر نے دوبارہ کہا:"جو دینار بچے ہوئے ہیں، وہ لاؤ۔ پھر دیکھیں گے کہ کل ملا کر کتنی رقم بنتی ہے۔""آپ فکر مند نہ ہوں۔" بیوی نے اسے ٹالتے ہوئے کہا۔ "میں نے وہ تمام دینار وہیں رکھے ہیں جہاں رکھنے چاہیے۔ جلد ہی ان شاء اللہ وہ آپ کے سامنے آجائیں گے۔ آپ تھکے ہوئے ہیں، اب آرام کریں۔"تھکے ماندے فروخ کو ایسی نیند آئی کہ صبح کو خبر لی۔

      بیدار ہونے پر وضو کیا اور دروازے سے نکلتے ہوئے اپنی بیوی سے پوچھا: "ربیعہ کہاں ہے؟""وہ اذان سنتے ہی مسجد پہنچ جاتا ہے۔" بیوی نے کہا۔ "آپ کو کچھ دیر ہوگئی ہے اب شاید ہی جماعت آپ کو مل سکے۔"فروخ مسجد پہنچا تو جماعت ہو چکی تھی۔ اس نے تنہا نماز ادا کی۔ فارغ ہو کر جب مسجد سے لوٹنے لگا تو دیکھا کہ پوری مسجد کھچا کھچ بھری ہوئی ہے۔ طالبان علم کاایسا با وقار اجتماع اس کی آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ دور بیٹھے ایک شیخ کے گرد لوگ حلقہ بنا کر با ادب بیٹھے ہوئے تھے۔ مجمع اتنا تھا کہ مسجد میں کوئی جگہ خالی نہ تھی۔ فروخ نے مجمع پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ حلقہ درس میں عمر رسیدہ علماء بھی شامل ہیں اور نوجوان طلبہ بھی۔ سب کی نگاہیں شیخ پر ہیں جو لفظ بھی ان کی زبان سے نکلتا ہے، موتی کی طرح اس کو چن لیتے ہیں اور لکھ کر محفوظ کر لیتے ہیں۔ شیخ جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں، مجمع میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کھڑے کچھ لوگ ان کی بات کے لفظ لفظ کو بلند آواز سے دہراتے ہیں تاکہ ہر شخص ان کی بات کو پورے طور پر صحیح صحیح لکھ سکے۔فروخ مجمع کے کنارے پر تھا۔ اس نے بڑی کوشش کی لیکن فاصلے کی وجہ سے وہ شیخ کو پہچان نہ سکا۔ وہ ان کی لیاقت و قابلیت سے حددرجہ متاثر ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد درس ختم ہوگیا۔ شیخ کھڑے ہوئے تو سارے لوگ ان کے پیچھے پیچھے مسجد کے دروازے تک آئے۔ شیخ کا اتنا ادب و احترام دیکھا تو فروخ سے نہ رہا گیا۔ اس نے ایک آدمی سے پوچھا: "مجھے بتایئے کہ یہ شیخ کون ہیں؟""اس آدمی نے فروخ کو اوپر سے لے کر نیچے تک حیرانی سے دیکھا اور کہا: "آپ ان کو نہیں جانتے، بڑی حیرت کی بات ہے! کیا آپ مدینہ کے باشندے نہیں ہیں؟""بھائی میں مدینہ ہی کا باشندہ ہوں۔" فروخ نے کہا۔"بھلا مدینہ میں کوئی ایسا آدمی بھی ہو سکتا ہے جو شیخ کو نہ جانتا ہو؟" "معاف کیجئے، میں واقعی نہیں جانتا۔""آپ بیٹھئے! میں بتاتا ہوں۔" اس آدمی نے فروخ کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ "دیکھئے، یہ شیخ "تابعی" ہیں۔ عالم اسلام کی شان و شوکت کے امین، فقہائے مدینہ کی آبرو، مدینہ کے محدث اور امام ہیں، گو عمر میں ابھی نوجوان ہیں۔""ما شاء اللہ!" فروخ نے بے ساختہ کہا۔"ان کی مجلس میں مالک بن انس، ابو حنیفہ النعان، یحیی بن سعید انصاری، سفیان ثوری، عبدالرحمان اوزاعی، لیث بن سعد جیسے علماء و فقہا بھی شامل ہوتے ہیں۔اہل مدینہ میں ان سے بڑھ کرکوئی سخی، خوش اخلاق اور با کردار نہیں۔"

   "لیکن ان کا نام آپ نے نہیں بتایا۔" فروخ نے بے تابی سے پوچھا۔"ان کا نام ربیعہ الرائے ہے۔""ربیعہ الرائے؟" فروخ نے دوبارہ پوچھا۔"ہاں، ربیعہ ہی ان کا نام ہے۔ لیکن مدینہ کے عالم ان کو "ربیعہ الرائے" ہی کہتے ہیں کیونکہ علماء کسی دینی مسئلے کو سلجھا نہ پا رہے ہوں تو انھی کے پاس جاتے ہیں اور مطمئن ہو کر واپس آتے ہیں!""آپ نے ان کے والد کا نام نہیں بتایا۔" فروخ نے بے تابی سے کہا۔"ربیعہ بن فروخ۔ شیخ جب پیدا ہوئے تو ان کے والد جہاد میں گئے ہوئے تھے۔ ان کی ماں نے ان کی تعلیم و تربیت کا فرض انجام دیا۔ اہل مدینہ ایسی ماں پر فخر کرتے ہیں۔ میں نے نماز سے کچھ پہلے سنا ہے کہ ان کے والد "فروخ" تیس برسوں کے بعد رات ہی گھر واپس آ گئے ہیں۔"فروخ کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ وہ مزید کچھ پوچھے بغیر گھر چل دیے۔ بیوی نے شوہر کو نم آلود پلکوں کے ساتھ گھر میں داخل ہوتے دیکھا تو پوچھا: "کیا ہوا آپ کو میرے سرتاج! خیریت تو ہے؟""واللہ! میں نے اپنے بیٹے کا جو مرتبہ و مقام دیکھا، وہ آج تک کسی کا نہیں دیکھا۔"بیوی نے موقع غنیمت جان کر فوراً کہا: "آپ بتایئے، دونوں میں سے آپ کو کون زیادہ عزیز ہے؟ بیٹے کا یہ مقام و مرتبہ یا تیس ہزار دینار؟""اللہ کی قسم اس علم و کردارکے آگے تو ساری دنیا ہیچ ہے۔" فروخ نے کہا۔"یہ تیس ہزار دینار میں نے اسی علم و کردار کی بلندی تک بیٹے کو پہچانے کے لیے خرچ کر دیے۔ بتایئے اللہ کے ساتھ کی ہوئی اس تجارت پرآپ خوش ہیں یا نہیں؟""اللہ تمھیں جزائے خیر سے نوازے۔ تم نے مجھے وہ خوشی دی جس پر ہر خوشی قربان۔ ایسی تجارت میں سرمایہ کھپایا جس سے نفع بخش تجارت کوئی نہیں۔" فروخ نے جذبات سے رندھی آواز میں کہا۔